Maktaba Wahhabi

263 - 421
اسلام نے عورت کو بھی پوری آزادی دی ہے اور ان کی مرضی کے خلاف نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کسی بیوہ عورت کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح نہ کیا جائے اور دوشیزہ (کنواری) عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: "یا رسول اللہ! اس کے اذن کی کیفیت کیا ہو گی؟" فرمایا: "اس کا چپ رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔" (ترمذی: 3/397، ابن ماجہ: 1/344، مسلم، اباب استیذان الثیب بالنطق) ایک اور روایت میں فرمایا: "وہ عورت جو شوہر دیکھ چکی ہے (ثیب) وہ بذات خود ولی سے زیادہ حق دار ہے، اور کنواری سے اس کا باپ اجازت حاصل کرے، اور اس کی اجازت اس کا چپ رہنا ہے۔" (مسلم، باب استیذان الثیب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت) احادیث کے الفاظ کا لب و لہجہ یہ بتا رہا ہے کہ عورتوں کو شادی کے باب میں بالکل مختار اور آزاد بنایا گیا ہے نہ کہ مسلوب الاختیار۔ معلوم ہوا کہ عورت کی رضا حاصل کیے بغیر اس کی شادی کسی مرد سے نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ ولی کا فریضہ ہے کہ پہلے وہ بالغہ سے رضا حاصل کرے پھر وہ کسی مرد سے اس کی شادی کی بات چیت کرے۔ حد یہ ہے کہ لڑکی کا والد جو لڑکی کے حق میں سراپا رحیم و شفیق ہوتا ہے اس کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے رہے ہیں کہ وہ لڑکی کی رائے معلوم کرے، لیکن اسلام نے جہاں لڑکی کی رضا اور اجازت کو ضروری قرار دیا ہے وہاں لڑکی کی حیا اور شرم کو بھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ اور لڑکی کے سکوت اور اس کی خاموشی کو بھی اجازت کا درجہ دے دیا، اگر وہ کنواری اور دوشیزہ ہے، البتہ اگر ثیبہ ہے تو پھر اس کی صراحتاً اجازت کی ضرورت ہے۔ استیمار اور استیذان سے اسی طرف اشارہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ سیدہ خنساء بنت حرام رضی اللہ عنہا کے باپ نے کسی شخص سے ان کی شادی کر دی۔ سیدہ خنساء کو یہ رشتہ پسند نہ آیا۔ وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خنساء کی عرض داشت قبول فرما لی اور اس کے باپ کے کیے ہوئے نکاح کو رد کر دیا۔ (بخاری، باب اذا زوج ابنتہ وہی کارہتہ)
Flag Counter