Maktaba Wahhabi

252 - 421
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "مکہ میں غلہ وغیرہ پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے قریش کی عادت تھی کہ سال بھر میں تجارت کی غرض سے دو سفر کرتے تھے۔ جاڑوں میں یمن کی طرف کہ وہ ملک گرم ہے اور گرمیوں میں شام کی طرف جو سرد اور شاداب ملک ہے۔ لوگ ان کو اہل حرم اور خادم بیت اللہ سمجھ کر نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے۔ ان کی خدمت کرتے اور ان کے جان و مال سے کچھ تعرض نہ کرتے۔ اس طرح ان کو خاطر خواہ نفع ہوتا۔ پھر امن و چین سے گھر بیٹھ کر کھاتے اور کھلاتے تھے۔ حرم کے چاروں طرف لوٹ کھسوٹ اور چوری ڈکیتی کا بازار گرم رہتا تھا، لیکن کعبہ کے ادب سے کوئی چور ڈاکو قریش پر ہاتھ صاف نہ کرتا تھا۔ اسی انعام کو یہاں یاد دلایا ہے کہ اس گھر کے طفیل تم کو روزی دی اور امن و چین دیا۔ "اصحاب فیل" کی زد سے محفوظ رکھا، پھر اس گھر والے بندگی کیوں نہیں کرتے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں ستاتے ہو؟ کیا یہ انتہائی ناشکری اور احسان فراموشی نہیں۔ اگر دوسری باتیں نہیں سمجھ سکتے تو ایسی کھلی ہوئی حقیقت کا سمجھنا کیا مشکل ہے؟ (فوائد عثمانی: ص 803) اسی امن و امان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص اپنے خاندان میں صبح کرتا ہے اور اپنے جسم میں عافیت پاتا ہے، اور اس کے پاس ایک روز کی خوراک ہے، گویا پوری دنیا اس کے پاس موجود ہے۔" (رواہ الترمذی، رقم: 2347 وقال حدیث حسن غریب) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لا يحل لمسلم ان يروع مسلماً) (ابوداؤد، رقم: 4351) "کسی مسلمان کے لیے یہ جائز اور حلال نہیں ہے کہ دوسرے مسلمان کو خوف زدہ کرے۔" خلاصہ یہ کہ اسلام نے انسان کے اس حق کی پوری پوری حفاظت کی ہے کہ وہ امن میں رہے اور اس کو خوف زدہ نہ کیا جائے، اور یہ کہ امن زندگی کے اہم لوازم میں سے ہے۔
Flag Counter