Maktaba Wahhabi

183 - 421
"جو امیر مسلمانوں کے امور کا نگران ہو اور پھر ان کی بھلائی اور بہتری کے لیے سعی و کوشش نہ کرے اور ان کی خیرخواہی نہ کرے وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔" (مسند ابی عوانہ: 1/32) اگر ایک حکمران رعایا کی دل کی گہرائیوں اور خلوص نیت کے ساتھ خیرخواہی نہیں کرتا، اور صرف وعدوں پر ٹال دیتا ہے اور زبانی جمع خرچ کر کے ان کو سنہری الفاظ میں ٹال دیتا ہے، اور ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دوسرے میڈیا کے ذریعہ انہیں یہ کہتا ہے کہ "حکومت نے تمہاری امداد کا تہیہ کر رکھا ہے یا ان کو بارہ بارہ کلوں اور روٹی، کپڑا اور مکان کی حسین خواب دکھاتا ہے اور عملی طور پر ان کے لیے کچھ نہیں کرتا تو وہ نہ صرف ان کی خیرخواہی نہیں کرتا بلکہ اپنے جھوٹے وعدوں سے انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔ اس دھوکہ دہی کا عذاب اسے الگ ہو گا۔ شریعت نے تو سربراہ مملکت کو تمام رعایا کا ولی بنایا ہے، اور اس کی ولایت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مملکت کے افراد کی بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل کا اہتمام کرے۔ (ترمذی: 1332، ابوداؤد، کتاب النکاح، رقم: 2948، مستدرک: 4/93، مسند احمد: 5/238) یہ تمام مسلمانوں کا اجتماعی حق ہے کہ جب کسی مسلمان کو کوئی مرض، غریبی یا بیکاری یا عجز و مجبوری یا بڑھاپا اور معذوری لاحق ہو جائے جس سے وہ کام کرنے سے معذور ہو جائے اور غریبی اور فاقہ کی وجہ سے اس کے لیے زندگی بسر کرنے کا انتظام کرے اور اس کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کا بندوبست کرے۔ ویسے بھی بحیثیت مسلمان ہونے کے ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ آپس میں محبت و مؤدت کے جذبات قائم کریں کیونکہ ان کی مثال ایک جسم کی ہے جس کے ایک حصہ سے دوسرا حصہ مضبوط ہوتا ہے۔ (رواہ البخاری: 5/2238، مسلم: 16/140) ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی مثال باہمی محبت و رحمت اور جان گساری کے بارے میں ایک جسم کی ہے۔ جب کسی جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے یا اس کو کوئی درد لاحق ہوتا ہے تو پورا جسم بخار، بیداری سے بے چین ہو جاتا ہے۔ (بخاری: 5/2238، مسلم: 16/140) اور ایک روایت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter