Maktaba Wahhabi

171 - 421
جو غیر مسلم فوجی کشمکش کے بعد اسلامی اقتدار کے تحت آئے ہوں، ان کی زمینیں ان کی ملکیت نہیں رہ جاتیں بلکہ اسلامی ریاست کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہیں۔ خراج کا تعلق اصلاً ایسی ہی زمینوں سے ہے۔ (کتاب الاموال: 328، 279، الخراج فی الدولۃ الاسلامیۃ: ص 111، ضیاء الدین الرئیس) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر فتح کیا تو وہاں کے یہودیوں نے کہا کہ ہم ان زمینوں کے مالک ہیں۔ ان کو کاشت کرنا ہم تم لوگوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، لہٰذا تم ان کو ہمارے قبضہ ہی میں رہنے دو اور ہمارے ساتھ بٹائی پر معاملہ کر لو۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور نصف پیداوار پر معاملہ طے ہو گیا۔ اسی طرح فدک کے لوگوں نے بھی بٹائی پر آپ سے معاملہ طے کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے یہ معاملہ مزارعت کی قسم کا ہے جسے اہل مدینہ "مساقات" کہتے ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے خیبر کی پیداوار کا تخمینہ چالیس ہزار وسق لگایا تھا۔ (ایک وسق 23 من کے برابر ہے) (کتاب الاموال: ص 208، کتاب الخراج لابی یوسف: ص 50) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں ان لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔ (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 50) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب شام اور عراق کے علاقوں کو فتح کیا تو پہلے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ ہی سے ان پر سرسری طور پر کچھ رقم مقرر کر دی گئی تھی۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اپنی مجلس مشاورت سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا ماہر اور دانش مند شخص بتائیے جو ان زمینوں کا مناسب طور پر بندوبست کرے، اور کاشت کاروں پر ان کی برداشت کے مطابق خراج تجویز کر دے۔ سب حضرات نے بالاتفاق سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ انہوں نے عراق و شام کا بندوبست کیا۔ ان کی معاونت کے لیے سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ان دونوں حضرات نے عراق کا جو بندوبست کیا وہ کچھ اس طرح تھا، رقبہ طول میں 375 میل، اور عرض میں 240 میل یعنی 3000 میل مکسر پیمائش کیا گیا، اور پہاڑ، صحرا اور نہروں کو چھوڑ کر قابل زراعت رقبہ تین
Flag Counter