Maktaba Wahhabi

166 - 421
(2) اگر مفاد عامہ کی کوئی خدمت سپرد ہونے کی بنا پر وہ خود کاشت نہ کر سکتا تو دوسرے کے ذریعہ سے کاشت کراتا تھا، اور آمدنی یا پیداوار میں دونوں شریک ہوتے تھے۔ اسلامی ریاست میں کبھی تو اس جاگیر کی یہ صورت ہوتی کہ صرف زمین کی منفعت کا مالک بنایا جاتا اور ذات زمین پر کسی قسم کے تصرف بیع، ہبہ وغیرہ کا اختیار نہ ہوتا تھا، اور کبھی زمین اور اس کی منفعت دونوں کا مالک بنا دیا جاتا۔ اس صورت میں ہر قسم کے تصرفات جیسے بیع اور ہبہ وغیرہ کے اختیارات بھی اس کو حاصل ہوتے۔ لیکن ان دونوں صورتوں میں مفاد عامہ کا نظریہ مضمر ہوتا، اور وہ نظریہ اکثر و بیشتر بنجر زمین کے احیاء کا ہوتا، لیکن اس میں گورنمنٹ کا ٹیکس ضرور لیا جاتا۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (الاقطاع اعطاء الارض للاحياء سواء وجب فيه العشر او الخراج) (فیض الباری: 3/308) "اقطاع کسی کو آبادکاری کے لیے زمین دینا خواہ اس میں عشر واجب ہو یا خراج۔" اجتماعی مفاد کے لیے خلیفہ کے اختیارات بہ نسبت دوسری زمینوں کے "قطائع" پر زیادہ ہوتے تھے۔ چنانچہ انہی اختیارات کے پیش نظر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دئیے ہوئے بعض قطائع کو جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے واپس لے لیا تھا، اور اس واپسی پر مفاد عامہ کے علاوہ اور کوئی جذبہ کارفرما نہ تھا۔ جس طرح رسول اللہ نے مفاد عامہ کی خاطر "جاگیر" دی تھی اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مفاد عامہ کے پیش نظر واپس لے لیا تھا۔ گویا کہ جاگیر دینے اور اس کے لینے دونوں میں مفاد عامہ کی روح کارفرما تھی۔ چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال بن حارث المزنی رضی اللہ عنہ کو پوری وادی عتیق جاگیر میں دے دی لیکن وہ اس کا بڑا حصہ آباد نہ کر سکے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ان سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ زمین اس لیے نہ دی تھی کہ نہ خود اس کو آباد کریں اور نہ کسی دوسرے کو آباد کرنے دیں، لہٰذا جتنی زمین آپ آباد کر سکتے ہیں اتنی اپنے آپ رکھیں اور بقیہ ریاست کو واپس کر دیں۔
Flag Counter