Maktaba Wahhabi

140 - 421
ہے۔ علامہ سید مرتضیٰ زبیدی نے رشوت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "کوئی شخص حاکم یا کسی اور افسر مجاز کو کوئی چیز دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے، یا حاکم کو اپنی منشاء پوری کرنے پر ابھارے۔ (تاج العروس: 10/150) کسی شخص پر ظلم کرنے کے لیے یا کوئی ناجائز کام کرانے کے لیے کچھ دینا رشوت ہے، اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے یا خود کو ظلم سے بچانے کے لیے کچھ دینا یہ رشوت نہیں ہے۔" چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ حبشہ کی سرزمین پر پہنچے تو ان سے ان کا کچھ سامان چھین لیا گیا۔ انہوں نے اس سامان کو اپنے پاس رکھا اور دو دینار دے کر اپنا سامان چھڑا لیا۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ جس کام میں رشوت دینے والا گنہگار ہوتا ہے یہ وہ نہیں ہے جو اپنی جان اور مال سے ظلم دور کرنے کے لیے دی جائے۔ رشوت وہ چیز ہے کہ تم اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے کچھ دو جو تمہارا حق نہیں ہے۔ اس میں دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: 10/139) بعض حضرات کے نزدیک رشوت ہر وہ مال ہے جو بشرط اعانت خرچ کیا جائے۔ (الاصول القضائیہ فی المرافعات الشرعیہ: ص 330) یعنی ہر وہ مال جو کسی کام میں کسی شخص کی مدد حاصل کرنے کی غرض سے خرچ کیا جائے۔ اس تعریف سے "ہدیہ" آپ سے آپ نکل جاتا ہے کیونکہ یہ اعانت کی شرط کے ساتھ نہیں دیا جاتا، لیکن یہ تعریف غیر رشوت کو رشوت میں داخل ہونے سے مانع نہیں جیسے مزدور، انجینئر، یا وکیل کو اجرت یا فیس دے کر اس سے کام کرانا، ظاہر ہے اس کا تعلق رشوت سے نہیں ہے، لیکن اس تعریف سے ان کا شمار بھی رشوت میں ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ: (لا يحل لامرئ من مال اخيه الا ماطابت به نفسه) (مسند احمد: 5/113، نیل الاوطار: 8/277) "اپنے بھائی کا مال اس کی رضامندی اور طیب نفس کے بغیر لینا کسی شخص کے لیے حلال نہیں۔"
Flag Counter