Maktaba Wahhabi

133 - 421
ہر طرح کا تصرف کر سکتا ہے۔" (بحوالہ الاشبا والنظائر: ص 531) تصرف کی طاقت اور قدرت وکیل کو بھی ہوتی ہے مگر بلا واسطہ نہیں ہوتی بلکہ موکل کی عطا کردہ ہوتی ہے، لہٰذا وکیل کو مالک نہیں کہا جائے گا۔ ایک دیوالیہ جس کو عدالت نے نوٹس دے دیا کہ وہ کوئی شے فروخت نہیں کر سکتا، وہ اگرچہ تصرف نہیں کر سکتا مگر وہ اپنے اثاثہ کا مالک ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز فیلسوف اسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے الفاظ نہایت مختصر اور واضح ہیں۔ فرماتے ہیں: (معني الملك في حق الآدمي كونه احق بالانتفاع من غيره) (حجۃ اللہ البالغہ: 2/96، ابواب اتبغا والرزق) "آدمی کے حق میں ملک کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے مقابلہ میں اس کو نفع اٹھانے کا حق زیادہ ہے۔" قاضی القضاۃ عبیداللہ بن مسعود الحنفی صاحب شرح الوقایہ نے یہ تعریف کی ہے: "ملک انسان اور کسی چیز کے درمیان شریعت کا تجویز کردہ ایسا تعلق ہے جو اس شخص کے لیے جائز قرار دیتا ہے کہ وہ اس شے میں تصرف کرے اور دوسرے کے تصرف کو روکتا ہے۔" (وحاجزاً عن تصرف الغير فيه) (شرح الوقایہ، کتاب العتاق) سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں یہ حق ملکیت انسان کو حقیقی ہے لیکن اسلام میں یہ حق ملکیت عارضی ہے کیونکہ اسلام میں کائنات کی ہر چیز کا مالک در حقیقت اللہ تعالیٰ جل شانہ ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم کی مختلف آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ (لِلّٰهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ) "آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے۔" اس آیت اور قرآن حکیم کی دوسری آیات کی رو سے اصل مالک تو ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو اشیاء کے حقوق ملکیت اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں اور ان کی حیثیت
Flag Counter