Maktaba Wahhabi

128 - 421
ان حقوق کو ازسرنو قائم کیا۔ چنانچہ دمشق میں ایک گرجا عرصہ سے مسلمان خاندان کی جاگیر میں چلا آ رہا تھا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جب مسند نشین خلافت ہوئے تو عیسائیوں نے ان کے پاس اس کا دعویٰ کیا۔ آپ نے فوری طور پر اس کو واپس دلا دیا۔ ایک مسلمان نے ایک گرجے کی بابت یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس کی ملکیت ہے۔ سیدنا عمر ثانی رحمہ اللہ نے فرمایا: "اگر یہ عیسائیوں کے معاہدہ میں ہے تو تم ان کو نہیں لے سکتے یہ ان کا رہے گا۔" (فتوح البلدان: ص 130) عمر بن عبدالعزیز ذمیوں کو نہ صرف عام مسلمانوں کے برابر سمجھتے تھے بلکہ شاہی خاندان جو اپنے کو دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں اعلیٰ و ارفع تصور کرنے لگے تھے، ان کے برابر سمجھتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ہشام نے غرور و تمکنت میں جو شاہی خاندان میں پیدا ہو گیا تھا۔ ایک عیسائی سے سخت کلامی کی۔ عمر بن عبدالعزیز نے اس کو ڈانٹا اور سزا دینے کی دھمکی دی یہاں تک کہ ہشام کا دماغ ٹھکانے آ گیا۔ اسلام نے صرف نظام حکومت کے اچھا ہونے پر زور نہیں دیا بلکہ اسلام نے حاکم حکومت کے اچھا ہونے پر بھی زور دیا ہے۔ اگر حاکم اچھا ہے تو نہ صرف رعایا خوش حال ہو گی، بلکہ حکومت کے محاصل میں بھی اضافہ ہو گا۔ لوگوں میں دیانت و امانت، صدق و راست بازی اور فرائض و حقوق کی ادائیگی کا جذبہ ابھرے گا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پہلے کے خلفاء لوگوں سے ناجائز محاصل وصول کرتے خصوصی طور پر ذمیوں سے وصولی میں ظلم و تعدی سے کام لیتے۔ وصول کرتے وقت سختی اور تشدد کرتے۔ آپ نے ان سب چیزوں کا سدباب کر دیا۔ اب بغیر کسی سختی اور تعدی کے ٹیکس اور خراج و جزیہ وصول ہوتا اور پھر اس کے مصارف بھی کثیر ہوتے تھے۔ لیکن ان کثیر مصارف کے باوجود بیت المال کی آمدنی میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ حجاج بن یوسف کے ظالمانہ دور سے کہیں زیادہ عراق کی آمدنی تھی۔ آمدنی کے اس اضافہ کو دیکھ کر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حجاج پر لعنت کرے، اس کو نہ دین کا سلیقہ تھا اور نہ دنیا کا۔ اس کے ظالمانہ دور میں قومی خزانے کی آمدنی صرف دو کروڑ اسی لاکھ درہم تھی، لیکن اب اسی عراق کی آمدنی لوگوں کو اتنی سہولتیں دینے کے باوجود بارہ کروڑ چالیس لاکھ درہم ہے۔
Flag Counter