وصفات اور افعال کی معرفت کرلے گا وہ اس کے ساتھ محبت کرے گا، کیونکہ جانکاری حاصل کر لینا اور اس سے محبت نہ کرنا امر محال اور غیر یقینی بات ہے پھر انسان اس سے محبت کرے اور اس کا ذکر نہ کرے یہ بھی امر محال ہے پھر انسان اس کا ذکر خیر کرے اور اپنی زبان وقلب میں اس کی مٹھاس ولذت محسوس نہ کرے یہ بھی امر محال ہے پھر اس کی حلاوت محسوس ہو اور دوسری چیزوں کو چھوڑ کر اس کے ساتھ منہمک نہ ہوں یہ بھی امر محال ہے۔
اللہ کی معرفت کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوقات پہ غور وفکر کرنا، اس کی نعمتوں کے بارے میں سوچنا، یہ بھی اللہ کی محبت کا باعث ہیں ، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خود اس کی دعوت دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَفِیْ اَنفُسِکُمْ اَفَــلَا تُبْصِرُوْنَo﴾ (الذاریات: ۲۱)
’’اور تمہاری ذات میں بھی نشانیاں ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔‘‘
تمہاری ساخت اور جسمانی بناوٹ خود تمہارے لیے درس عبرت ہے ، انسان کسی بھی چیز کے بنانے والے کی خوب تعریف کرتا ہے، اگرچہ اسے نہ دیکھا ہو، دنیا کی عجیب وغریب اختراعات وایجادات اس کی زندہ مثالیں ہیں ، ہم ان کے بنانے والے کو نہیں دیکھتے ہیں لیکن جب ان چیزوں کو دیکھتے ہیں یا بذات خود استعمال کرتے ہیں تو زبان ان چیزوں کی اور ان کے بنانے والے کی تعریف وتوصیف سے نہیں تھکتی، اور ان کے حاصل کرنے میں پہلے بہت سارے روپے اور جسمانی وذہنی تکلیفیں اور پریشانیاں بھی برداشت کرتے ہیں لیکن قدرت کے وہ انعامات جو خود انسان کے اندر پائے جاتے ہیں وہ کس کے بنائے ہوئے ہیں ، بغیر روپے اور تھکان وپریشانی کے ہمیں ودیعت کیے گئے ہیں ، ہم ان کی تعریف و توصیف اور اس کے بنانے والے کی تعریف وتحمید کیوں نہیں کرتے؟ ایجادات جدیدہ پہ عقلیں حیران ہیں لیکن جس نے وہ عقل ودانش، فہم وفراست، علم وحکمت اورتفکروتدبر جیسی انمول رتن اور بیش بہا دولت سے نوازہ ہے اس کی تعریف کیوں نہیں کی جاتی؟ پیدائش سے لے کر موت تک
|