رشتہ داروں سے محبت
انسان کا معاشرے میں مختلف لوگوں سے سابقہ پڑتاہے، ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، کوئی بھی آدمی کتناہی امیر ومال دار ہو اپنے رشتہ داروں سے پہلو تہی نہیں برت سکتا، انسانی زندگی میں خوشی وغمی کے حالات آتے ہی رہتے ہیں ، ان حالات میں رشتہ دار ایک دوسرے کی مدد واعانت کرتے اور خوشی وغمی میں شریک ہوتے ہیں ۔
اسلام نے تمام لوگوں کو مناسب حقوق دیے ہیں ، ان حقوق کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ ہونا از حد ضروری ہے، انسان کے وجود کے ساتھ مختلف قسم کی رشتہ داریاں اور قرابت داریاں وجود پذیر ہوتی ہیں ، ان سب کے ساتھ پیارو محبت سے پیش آنا، ان سے موقع ومحل کے اعتبار سے ملنا، ان کے احوال وکوائف سے واقفیت رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ، شادی وبیاہ، عیدو تہوار، رنج و غم ا ور آفت ومصیبت میں ان کا ساتھ دینا ہمارا فریضہ ہے، مثلاً والدین، دونوں حسن سلوک کے زیادہ حق دار ہیں ، پھر دونوں کی وجہ سے جو رشتہ داریاں معرض وجود میں آتی ہیں وہ سب کے سب حسن سلوک اور محبت کے لائق ہیں ، باپ کی طرف سے چچا ، چچی ان کے بچے ، پھوپھا، پھوپھی اور دادا ، دادی وغیر ہ ، اسی طرح ماں کی طرف سے وجود میں آنے والے رشتے مثلاً، نانا، نانی ماموں ، ممانی خالہ، خالو، ان کے بچے، اسی طرح اپنے سگے بھائی ، بہن اور ان کے بچے حسن سلوک اور حسن معاشرت کے حق دار ہیں ، جسے اسلام نے رشتہ داروں سے محبت اور صلہ رحمی کا نام دیا ہے، انسان اس وقت تک سماج ومعاشرہ میں ایک کامل انسان نہیں بن سکتا ، عزت واحترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا ، جب تک کہ وہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا معاملہ نہ کرے اور اپنے تعاون ومدد ، کلا م وگفتگو ، چال چلن اور اپنے
|