Maktaba Wahhabi

170 - 379
شریعت اسلامیہ نے ہر حالت میں دیندار لڑکی کو اختیار کرنے کی تاکید ہے ، ہمارے اسلاف کرام نے شادی ، بیاہ کے وقت ہمیشہ دین دار لڑکیوں کو ترجیح دی ہے یہاں ایک واقعہ بطور مثال قلم بند کیا جارہا ہے ۔ واقعہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک رات مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت لگارہے تھے تاکہ خفیہ طور پر لوگوں کے حالات سے باخبر ہوں ، دریں اثنا آپ نے سنا کہ ایک گھر سے کچھ آوازیں آرہی ہیں ، گھر کی دیوار سے کان لگاکر کھڑے ہوگئے ، سنتے ہیں کہ ایک ماں اپنی جوان لڑکی سے کہہ رہی ہے بیٹی! آج رات اونٹنیوں نے دودھ کم دیا ہے اس لیے تم تھوڑا سا پانی ملا دو تاکہ گاہکوں کو دودھ برابر مل جائے، بیٹی نے جواب دیا امی جان ! امیر المؤمنین کا حکم ہے کہ فروخت کرنے کے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے، ماں نے کہا اس رات کے اندھیرے میں کونسا امیر المؤمنین ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے؟ بیٹی اللہ والی تھی، اس نے جواب دیا اگرچہ امیر المؤمنین عمر بن الخطاب نہیں دیکھ رہا ہے، لیکن عمر کا رب تو ضرور دیکھ رہا ہے! میں یہ جرم ہرگز نہیں کر سکتی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب اس لڑکی کی یہ بات سنی تو روپڑے، دوسرے دن اس لڑکی کے متعلق معلومات جمع کیں ، پتہ چلا کہ لڑکی غیر شادی شدہ ہے، پھر اپنے لڑکوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا میرے بچو! گزشتہ رات میں نے ایک دیندار لڑکی کی یہ یہ باتیں سنیں ، اللہ کی قسم! اگر مجھ میں جوانی ہوتی تو ضرور میں اسے اپنے گھر میں بیوی بناکر لاتا لیکن میں بوڑھا ہوچکا ہوں ، میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں ، اب مجھ میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ میں کسی جوان لڑکی سے شادی کروں ، لیکن میں نہیں چاہتا کہ وہ لڑکی ضائع ہوجائے بلکہ وہ میری بہو بن کر میرے گھر میں آئے، آپ کی یہ باتیں سن کر حضرت عاصم بن عمر نے کہا ابا جان! اس لڑکی سے میں شادی کروں گا، آپ نے اس نیک لڑکی کا بیاہ اپنے بیٹے سے کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نیک خاتون سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اور پھر اس لڑکی سے حضرت عمر بن
Flag Counter