کہ وہ ربیع بن خثیم کے سامنے جائے شاید کہ وہ انھیں فتنہ میں ڈال سکے، اور اس سے کہنے لگے کہ اگر اس نے ایسا کر لیا تو اسے ایک ہزار درہم انعام دیا جائے گا۔
اس قصہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ انسانوں میں بھی ایسے شیطان ہیں جو کہ اہل صلاح (نیکوکار) لوگوں کو خراب کرنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ دعوت اسلام کے خلاف سازشیں کر سکیں اور دین کے خلاف جنگ کی راہیں ہموار کر سکیں ۔ تو اس عورت نے جس قدر اس سے ہو سکتا تھا ، بہترین اورخوبصورت لباس پہنا، اور اپنی وسعت کے مطابق بہترین خوشبو لگائی۔ پھر اس وقت ان کی راہ میں آڑے آئی جب وہ نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے۔ آپ نے اس عورت کی طرف دیکھا، تو اس کی اس حالت سے خوف محسوس ہوا وہ تو بالکل بے پردہ ہوکر ان کے سامنے آگئی۔
سیّدنا ربیع اس سے کہنے لگے: ’’وہ وقت کیسا ہوگا جب تمہارا جسم بخار میں مبتلا ہو جائے اور تیری یہ رنگت اور چمک جو میں دیکھ رہا ہوں ، اس کو بدل دے؟ پھر وہ وقت کیسا ہوگا جب ملک الموت تیرے پاس آئے گا ، اور تیری شہ رگ ِ حیات کو کاٹ کر رکھ دے گا؟ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب منکر و نکیر تجھ سے سوال کریں گے؟ اس عورت نے ایک چیخ ماری اور غش کھا کر گر گئی۔ پھر اپنے رب کی عبادت میں اس عورت کی یہ حالت ہوگئی کہ جس دن اس کی موت واقع ہوئی تو وہ گویا کہ کوئی جلا ہوا تنا تھی۔ ‘‘[1]
۴۔سری بن دینا ررحمۃ اللہ علیہ کا قصہ :
سری بن دینار رحمہ اللہ کا گزر مصر کی کسی ایک گلی میں ہوا۔ یہاں پر ایک خوبصورت عورت رہتی تھی جس نے اپنے حسن و جمال سے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ان کے بارے میں بھی اس عورت کو خبر ہوئی۔ وہ کہنے لگی میں ضرور بالضرور ان کو فتنہ میں مبتلا کروں گی۔ جب وہ آپ کے گھر میں دروازے کی طرف سے داخل ہوئی تو اس نے تمام حجاب الٹ دیے اور
|