میں حضرت ابوبکر سے سبقت لے جاؤں گا، لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمان نبوی پاکر اپنے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں اور گھر کا سارا مال سمیٹ کر لاتے ہیں اور قدم نبوی میں رکھ دیتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کرتے ہیں کہ تونے اپنے اہل وعیال کے لیے اپنے گھر میں کیا چھوڑا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں : (( اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔)) میں نے اپنے گھر میں صرف اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑاہے ، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں کبھی بھی نیکی میں حضرت ابوبکر سے سبقت نہیں کر سکتاہوں ۔
فتح مکہ کے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ مشرف بہ اسلام ہوئے، یہ بہت تاخیر سے اسلام لائے اور اس وقت یہ اندھے ہوگئے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تاکہ ان کے اسلام کا اعلان کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کریں ، انہیں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! کیوں نہ تونے اپنے بوڑھے باپ کو گھر ہی میں چھوڑ دیا اور ہم ان کے پاس جاتے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ آپ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپ کے پاس انہیں لایاجائے۔
جس دن ابوقحافہ اسلام لائے اس وقت ابوبکر رونے لگے تو ان سے کہا گیا کہ آج کا دن توآپ کے لیے بہت مبارک دن ہے، خوشی کا دن ہے کہ آپ کے والد اسلام لائے اور جہنم کی آگ سے نجات پائے پھر آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے ، انہوں نے کہا آج میرے والد اسلام لائے تو اس وقت مجھے خوشی نہیں ہے لیکن اگر ابوطالب اسلام لائے ہوتے تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کتنا خوش ہوتا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے مجھے اپنے باپ کے اسلام کے خوشی سے زیادہ خوشی ہوتی۔
۲۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت :
موت سے اس وقت سبھی لوگ ڈرتے ہیں جب آدمی دیکھ رہا ہو کہ موت اس کے
|