ان سب کا پیدا کرنے والا ہے ، پھر ہم غور کریں کہ اس کے کلام کے پڑھتے وقت ہم کس قدر دھیان سے پڑھتے یا سنتے ہیں اور کس قدر اس کے احسانات کا بدلہ چکاتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے کلام کے ایک ایک حرف کے پڑھنے پہ دس دس نیکیاں عنایت کرتاہے ، توجہ اور خلوص سے ایک حرف پڑھنے پر سو نیکیاں اور کبھی سات سو نیکیاں عنایت کرتاہے، یہاں ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا محسن اور دوست کون ہے، جس کے کلام کو ہم غور وفکر، انہماک ودلچسپی سے سنیں یا پڑھیں ، یقینا وہ کلام، اللہ واحد لاشریک لہ کا کلام ہے، اب ہم خود اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں کہ ہم کس قدر اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔
انسان کو اپنی محبت الٰہی کا معیار قرآن کریم کو بنانا چاہیے، جس وقت بھی محبت الٰہی کی چانچ وپڑتال کرنا ہو اپنے آپ کو قرآن کریم کے سامنے پیش کر دے، اگر وہ قرآن سے محبت کرتا ہے، اس کے پڑھنے سے لذت وحلاوت محسوس کرتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے اور ظاہر سی بات ہے جو قرآن سے محبت کرتا ہے وہ اللہ سے محبت کرے گا اور جو اللہ سے محبت کرے گا وہ اس کے رسول سے محبت کر ے گا اور جب اللہ ورسول دونوں سے محبت کرے گا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پہ کما حقہ عمل پیرا ہوگا ۔
۵۔ قضا وقدر پہ رضا مندی :
اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اچھی اور بری تقدیر پہ خوش اور راضی ہواجائے اور یہ انسان کی نیک بختی اور سعادت مندی کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ ہر ان معاملات میں اللہ سے خوش ہو جس میں اللہ کی رضامندی ہو اگرچہ وقتی طور پہ اسے اپنا نقصان وخسارہ نظر آرہا ہو اور انسان اور خالق کی محبت کے درمیان انسان کی حرماں نصیبی حائل نہ ہو بلکہ اللہ کا کسی چیز کا عطا کرنا او رنہ عطا کرنا انسان کے نزدیک برابر ہو، جب اسے خوش آئند چیزیں دستیاب ہوں تو وہ خوش ہو اور جب ان چیزوں سے محروم ہو تو شکوہ وگلہ نہ کرے بلکہ برابر صبر وشکر کا دامن تھامے رہے اور ہر حال میں اللہ کے فیصلے پہ رضامند رہے اور یہی سب سے بڑی محبت
|