Maktaba Wahhabi

304 - 379
گناہ سے چھٹکارہ پانے کی تمناکرنے لگا۔ اسے نہ ہی تو معشوق حاصل ہوئی اور نہ ہی عشق کا بوجھ برداشت کرسکا۔‘‘[1] عشق شراب کے نشہ کی طرح ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نشہ والی چیزکوپہلے اپنے اختیار سے لیا جاتا ہے۔ مگر پھر جب اس کی عقل چلی جاتی ہے اور نشہ چڑھ جاتا ہے تو پھر اسے مجبوراً لینا پڑتا ہے۔ جب اس کا سبب پہلی بار اپنے اختیار سے تھا تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی برائی کے سلسلہ میں کوئی بھی معذور نہیں ہوگا۔ جب مسلسل دیکھتے رہنے اور اپنے محبوب کے بارے میں سوچتے رہنا ، پھر اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا یہ سب اپنے اختیار میں تھا ، تو عشق بھی اختیاری ہوا۔ اسی لیے انسان کو اس کے عشق پر ملامت کیا جاتا ہے۔ عشق کے خطرات بعض عشّاق یہ دعوی کرتے ہیں کہ عشق نفس کو بالیدگی بخشتاہے اوراوپر اٹھاتا ہے ، روح کو آگے لے کر جاتا ہے، اور اس طرح وہ عشق کو ایک انتہائی مثبت اور نفع بخش چیز ثابت کرتے ہیں ۔ حق بات تو یہ ہے کہ عشق کے منفی پہلو اس کے مثبت پہلوؤں سے بڑھ کر اور بہت زیادہ ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ بے شک عشق کی تکلیف سے عقل اور علم کی کمی ،اخلاقیات اور دین میں خرابی ؛ اور دین و دنیا کی مصلحتوں سے بے پروائی [اور لاعلمی] پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ اس چیز سے کئی گناہ بڑھ کر ہیں جو کوئی اگر اچھی چیز اس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہوگی۔ اس پر سب سے بہترین شاہد امتوں کے حالات اور لوگوں کے واقعات اوران کی خبریں ہیں ۔ جو کہ انسان کو معاینہ اور تجربہ سے بے نیاز کردیتی ہیں ۔ جس انسان نے اس کا تجربہ کیا ہو یا اس کا معاینہ کیا ہو ؛ اس کے لیے اتنی ہی عبرت کافی ہے۔ کبھی بھی کوئی عشق ایسا
Flag Counter