میں اقامت (تکبیر) کہنے سے متعلق کوئی صحیح یا حسن حدیث موجود نہیں ہے، لہٰذا بچے کے کان میں اقامت کہنا شرعاً ثابت نہیں ہوتا۔
اس مسئلہ پر دو حدیثیں موجود ہیں جن کو امام ابن قیم رحمہ اللہ نے نقل کرکے ضعیف قرار دیا ہے ان دونوں کی وضاحت یوں ہے :
پہلی حدیث:
((من ولد لہ مولود فأذن فی أذنہ الیمنی وأقام فی إذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان۔))
’’ جس کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوا پھر اس نے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچے کو ام الصبیان کی بیماری نقصان نہیں دیتی ۔‘‘
اس حدیث کو ابن السنی نے روایت کیا ہے، حدیث موضوع اور من گھڑت ہے۔ لہٰذا اس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ ملاحظہ ہو : (عمل الیوم واللیلۃ ص ۲۲۰ حدیث: ۶۲۳ )
دوسری حدیث کو امام بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ میں نقل کیا ہے۔
ملاحظہ ہو: ۶/۳۹۰ حدیث رقم ۸۶۲۰یہ حدیث سخت ضعیف ہے اس کو دلیل بنانا بھی صحیح نہیں ہے لہٰذا نومولود کے کان میں اقامت کہنے کا حکم کسی طرح ثابت نہیں ہوتا۔[1] واللّٰہ أعلم بالصواب
۲۔گھٹی دینا اور دعائے برکت :
بچہ جب پیدا ہوتو والدین کو چاہیے کہ اسے کسی صاحب علم اور متقی وپرہیزگار کے پاس لائیں تاکہ وہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چباکر اور ترکرکے بچے کے منہ میں ڈال دے اور اس بچہ کے لیے خیر وبرکت کی دعا کرے، ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایاجاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان
|