ہے جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اللہ کو اپنا دوست بنائے اور ان تمام چیزوں سے دوری اختیار کرے جن سے محبت الٰہی میں خلل پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی سعادت ونیک بختی کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ ان تمام جگہوں سے احتراز کرے جہاں سے اس کے ایمان وایقان کا سودہ ہوتاہے اور اس کی نظریں آخرت سے ہٹ کر دنیا کی سرسبز وشادابی پہ پڑتی ہیں ۔
۳۔اللہ کی عبادت وطاعت:
اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کی عبادت وبندگی کرے اور اس کے احکام وفرامین کے سامنے بے چوں وچرا اور بلاتردد سر تسلیم خم کردے اور اس کی معصیت ونافرمانی سے بالکلیہ اجتناب واحتراز کرے اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اسے پسند کرے اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہے اسے ناپسند کرے اور اللہ کی خوش نودی و رضا جوئی کے لیے نیک کام کرے اور تمام ان چیزوں کے انجام دینے سے گریز کرے، جو اللہ سے دور ی کا سبب بنیں اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرو اہ نہ کرے جیسا کہ آج کل لوگ شعائر اسلام پہ عمل پیرا ہونے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے ، محض اس وجہ سے لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے شعائر اسلام پہ کار بند نہ ہونا یہ اللہ سے عدم محبت کی علامت ہے ، مثلاً داڑھی اس وجہ سے نہ رکھنا کہ اس سے چہرے کا حسن وجمال اور رونق زائل ہوجاتی ہے اور لوگ ہمیں اس شکل وصورت میں کیا کہیں گے؟ یہ سب واہیات کی باتیں ہیں جن سے ہمارے ایمان اور محبت الٰہی میں کمی آتی ہے۔
اللہ کے سامنے جھکنا ، اس کی عبادت وبندگی کرنا، نماز کی پابندی کرنا ، یہ اس کی محبت کی سب سے بڑی نشانی ہے، نماز کے بغیر محبت الٰہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، اذان ہورہی ہے اور ہم اپنے کاموں میں مشغول ہیں ، جماعت ہورہی ہے اور ہم اپنے بستر پہ آرام فرمارہے ہیں ،حالانکہ محبت الٰہی کی علامت یہ ہے کہ جب اذان کے کلمات کانوں سے ٹکڑائیں تو اپنی
|