اچانک نظر:
سیّدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک پڑ جانے والی نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نظر پھیر لینے کا حکم دیا۔ ‘‘[1]
اچانک پڑنے والی نظر وہ ہے جو بغیر کسی قصد و ارادہ کے کسی اجنبی عورت پر پڑ جائے۔[2]
اس نظر کا حکم یہ ہے کہ ابتداء میں اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن یہ واجب ہے کہ انسان فوراً اپنی نظروں کو پھیر لے۔ اگر وہ برابر دیکھتا ہی رہا تو پھر اس پر اس کا گناہ لازم آئے گا۔ ‘‘[3]
سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے علی! نظر کے پیچھے نظر نہ لگا اس لیے کہ پہلی نظر تو جائز ہے مگر دوسری نگاہ جائز نہیں ۔‘‘[4]
اس سے مراد یہ ہے کہ نگاہ کا پیچھا نہ کیا جائے، اورنہ ہی ایک بار نظر پڑجانے کے بعد دوسری بار دیکھا جائے۔ اس لیے کہ آپ کو پہلی نظر معاف ہے، جوکہ بغیر کسی ارادہ و قصد کے اچانک واقع ہوجائے اوردوسری نظر معاف نہیں ہے اس لیے کہ اسے باقاعدہ قصد و ارادہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اس سے ان لوگوں کے قول کے قول کا بھی ردّ ہے جو اس کا ٹھٹھہ بنالیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلی نظر میں ہی دیر تک دیکھتے رہنا جائز ہے جب تک کہ آنکھ جھپک نہ جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ ﴾
(الأنعام :۴۶)
’’کہیے کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تمھاری سماعت اور تمھاری نگاہوں کو لے لے اور
|