وہ اس کے عیوب کو نہیں دیکھ پاتا۔ یہاں تک کہ جب اس کی رغبت ختم ہوجاتی ہے تو وہ عیوب بھی اسے نظر آنے لگتے ہیں ۔ بس یہی رغبت وہ پردہ تھی جو آنکھوں پر پڑی ہوئی ہیں ۔ اسی لیے کسی عاشق نے کہا ہے :
’’ میرا دل اس وقت تمہارے ساتھ لگا ہوا تھا جب میری آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ جب یہ اندھیرا چھٹ گیا تو میں نے اپنے کو اس منقطع کردیا (تعلقات توڑ دیے ) اور اپنے نفس کو ملامت کرنے لگا۔‘‘[1]
جب یہ عاشق تھا تو اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے تھے، اور جب یہ عشق ختم ہو گیا تو وہ لوگوں سے پوچھنے لگا کہ مجھے ایسا محبوب کیونکر بھلالگنے لگا تھا۔
پس یہ سارا معاملہ ہی ایسے ہے۔ جب کوئی انسان کسی چیز میں داخل ہوتا ہے تووہ اس کے عیوب نہیں دیکھ سکتا، اور جو اس سے باہر وہ بھی صحیح طرح سے اس کے عیوب سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے عیوب کو حقیقی معنی میں وہی جانتا ہے جو اس میں داخل ہوکر باہر نکلے۔ مگر جو لوگ عشق میں داخل ہوکر باہر نکلتے ہیں ، وہ بہت ہی تھوڑے ہیں ۔
صحابہ کرام بہترین مخلوق کیوں تھے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کفر کے بعد اسلام میں داخل ہوئے وہ ان لوگوں سے بہت ہی بہتر تھے جو لوگ اسلام پر ہی پیدا ہوئے ، اس کی آخر کیا وجہ تھی؟
اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے کفر کو دیکھا ، اور اس کا ذائقہ چکھا تھا ، کفر پر تجربہ کر چکے تھے۔ پھر اس کے بعد جب انہوں نے ہدایت پائی اور انہوں نے جاہلیت کو بھی پہچانا اور اسلام کو بھی پہچانا، اور یہی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کا معنی ہے ؛ آپ فرماتے ہیں :
’’ بے شک اسلام کی تانتیں ایک ایک کرکے ٹوٹتی رہیں گی۔ یہاں تک کہ اسلام میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جاہلیت کو پہچانتے بھی نہیں ہوں گے۔ ‘‘
|