نہیں پاتا۔دنیاوی مصلحتیں دینی مصلحتوں کے تابع ہونے کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں ۔ جب انسان دینی مصلحتوں سے غافل ہوکر مشغول ہوجاتا ہے ، تو وہ دنیاوی مصلحتوں کا سب سے زیادہ ترک کرنے والا اور ان میں تفریط کا شکار ہوتا ہے۔
۶۔ عاشق اوردنیاوی آفات:
دنیاوی و اخروی مصائب عاشق پر اتنی جلدی اثر انداز ہوتی ہیں جتنی جلدی تیز آگ خشک لکڑیوں کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ : ’’ جب بھی عاشق عشق کی آگ میں آگے بڑھتا ہے ،اور معشوق سے اس کا وصل بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی دوری زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں سے اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور عاشقوں کے دل ہوتے ہیں ، اور جب عشاق کے دل اللہ تعالیٰ سے دور ہوتے جاتے ہیں تو تباہیاں ان کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہیں ، اور شیطان انھیں ہر طرف سے گھیر لیتا ہے، اور جسے اس کا دشمن گھیر لے ، اور اس پر غالب آجائے ، تو پھر کوئی تکلیف و برائی ایسی نہیں رہتی جو وہ اس انسان کو پہنچا سکتا ہو، پھر وہ اسے نہ پہنچائے۔
اس دل کے بارے میں کیا خیال ہوگا جس پر اس کا دشمن غالب آگیا ہو اوروہ دشمن بھی ایسا ہو کہ انسان کو تباہ کرنے اور گمراہ کرنے پر سب سے بڑھ کر حریص ہو؟
ایسے ہی جب عشق دل میں پختہ ہو جائے اور جگہ پکڑلے ، تو وہ عقل کو تباہ کردیتا ہے۔ ذہن کو خراب کردیتا ہے۔ وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں ، اور انسان سے سوچ وچار کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کا عاشق کوئی بھی سبق اچھی طرح نہیں حاصل کر سکتا، اور نہ ہی وہ تجارت میں کامیاب ہوسکتے ہیں ، اور نہ ہی کسی مسئلہ میں اچھی طرح غور و فکر کرسکتاہے، اورنہ ہی کسی مشکل کو حل کرپاتا ہے۔ اس لیے کی اس کی سوچ شل ہوچکی ہے، اور اس کے دل پر زنگ غالب آچکاہے۔ اسے تو کوئی سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیسے سوچ وچار کرے۔
انسان میں سب سے بہتر چیز اس کی عقل ہے، اور اسی عقل کی وجہ سے انسان جانوروں
|