جھوٹے ہیں ، اسی طرح ہمیں اللہ سے ملنا ہے اور اس کے روبرو اپنے کیے گئے اعمال کا حساب دینا ہے اور اللہ کو دیکھنے کا شوق جو ایمان والوں کی آخری خواہش ہوگی، قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ جنتیوں کو سارے انعامات دے دیں گے، اس وقت ان کی ایک ہی خواہش باقی رہ جائے گی جو دیدار الٰہی سے پوری ہوگی ۔
بہت سارے سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ محض اللہ سے ملاقات کے لیے موت کی تمنا کرتے تھے ، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے تھے میں موت کو اللہ سے ملاقات کے لیے پسند کرتا ہوں ، فقر وفاقہ کو اپنے رب کے سامنے تواضع وانکساری کی وجہ سے پسند کرتا ہوں اور بیماری کو اپنے گناہوں کے معاف ہونے کے لیے پسند کرتا ہوں ۔
۲۔تنہائی میں اللہ کو یاد کرنا:
انسان یکسو ہو کر، خلوت وتنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے، قیام اللیل اور تہجد پہ مداومت برتتا ہے، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں پہ نادم ہوتا ہے، اس کے سامنے گریہ وزاری کرتا ہے، دنیا وآخرت کی بھلائی طلب کرتا ہے، دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوکر اس وقت اپنے معبود حقیقی کو پکارتا ہے جب کہ ساری دنیا محو خواب ہوتی ہے، خاص طور سے رات کے آخری اوقات میں جب کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پہ جلوہ افروز ہوتا ہے اور پکار تا ہے کہ ہے کوئی !سوال کرنے والا جس کے سوال کو میں پورا کروں ، ہے کوئی! ضرورت مند جس کی ضرورت کو میں پورا کروں اور یہ ہر رات کو ہوتا رہتا ہے، اس لیے انسان کو ایسے سنہرے اوقات کو ضائع وبرباد نہیں کرنا چاہیے، اگر ان چیزوں کی طرف ہمارے دل مائل ہوتے ہیں تو خیر ہے ورنہ اپنی محبت الٰہی پہ نظر ثانی کرنی چاہیے، اس لیے کہ جو اپنے اوقات بے کار کی باتوں میں صرف کرتا ہے، زیادہ سونے کا عادی ہے، آرام پسند ہے اور انہی چیزوں کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتا ہے تو بھلا کس طرح وہ اللہ سے محبت کر سکتا ہے ، کیونکہ اللہ کی محبت کے سامنے دنیاوی لذت کو کچل دینا ہی در اصل اللہ سے محبت ہے، وہ انسان کیا ہی بہتر
|