میں (کم عمر جوانوں کے بجائے اس میدان میں ) کڑیل بہادر جوانوں کے درمیان ہوتا ، ان دونوں میں سے ایک نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے پوچھا چچا جان! آپ کو معلوم ہے ابوجہل کون ہے؟ میں نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے لیکن تم اسے کیا کہوگے؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے اس وقت تک الگ نہیں ہوگا جب تک کہ ہم میں سے جس کی موت پہلے لکھی ہے وہ مرنہ جائے، مجھے اس نوجوان کی بات پر تعجب ہوا، اتنے میں دوسرے نوجوان نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات پوچھی ، چند ہی لمحوں میں میری نظر ابوجہل پر پڑی ، وہ لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا تھا، میں نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ارے دیکھتے نہیں ! وہ رہا ابوجہل جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے، یہ سنتے ہی دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ یک دم جھپٹ پڑے اور اسے قتل کرڈالا۔[1]
۵۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں احد کے روز شکست کھانے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہوگئے، صرف ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے، وہ اپنی ڈھال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کیے ہوئے تھے ، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ زبردست تیرانداز تھے ، اس روز ان کے ہاتھوں سے دو یا تین کمانیں ٹوٹیں ، جب کوئی صحابی تیروں کا ترکش لے کر نکلتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے یہ تیر ابو طلحہ کے لیے رکھ دو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپناسر مبارک اونچاکرکے کافروں کی طرف دیکھتے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ سر مبارک اونچا نہ کریں ، کہیں کسی کافر کا تیر آپ کو نہ لگے ، میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے ہے۔ [2]
|