Maktaba Wahhabi

218 - 379
چاہیے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ﴾ (الحجرات: ۱۱) ’’اور ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو۔‘‘ اسی طرح ایسے نام جن کے معانی درست اور صحیح نہ ہوں ، انہیں بدل دینا چاہیے، کیونکہ ایسے غلط نام کا برا اثر پڑتا ہے۔ بچے کا نام اگر والدین کی باہمی مرضی سے طے ہوجائے توبہتر ہے ورنہ نام رکھنے کا زیادہ حق دار والد ہے، کیونکہ بچے کی نسبت ہمیشہ والد کی طرف ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (الأحزاب: ۵) ’’بچوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو، اللہ کے ہاں یہی زیادہ منصفانہ بات ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وُلِدَ لِی اللَّیْلَۃَ غُلَامٌ فَسَمَّیْتُہٗ بِاسْمِ اَبِی اِبْرَاہِیمَ۔))[1] ’’ آج رات میرے ہاں بچہ پیدا ہوا میں نے اس کا نام اپنے ابا حضرت ابراہیم کے نام پر رکھا ہے۔‘‘ ۶۔ختنہ کرنا : بچے کا ختنہ وقت پہ کردینا چاہیے، اس سے بچے کی نظافت وپاکیزگی کا اہتما م ہوتا ہے، اس میں پیشاب وغیرہ کے رہ جانے سے گندگی اور بدبو پیدا ہوتی ہے اور کینسر جیسی مہلک بیماری کا بھی خدشہ رہتا ہے، اگر بچہ صحت مند اور تندرست ہو تو عقیقہ کے دن ہی ختنہ کردینا چاہیے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں کا کیا: ((عَنْ جَابِرٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ عَقَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَنِ الْحَسَنِ
Flag Counter