Maktaba Wahhabi

231 - 379
اساتذہ کرام کوٹھہراتاہوں اورنہ ہی منتظمین کو بلکہ اس کا ذمہ دار والدین کوٹھہراتا ہوں ، کیونکہ اہل جامعہ اوراساتذہ کرام اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں اور وہ حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ ہمار اشاگر د ہونہار ہو ، فراغت کے بعد اچھا کام کرے جس سے ہمارا سر اونچا ہو اور ہمیں لوگ توقیر وعزت کی نگاہ سے دیکھیں ، لہٰذا اس کے اصل ذمہ دار والدین ہیں ، والدین خود اپنے بچے سے مشورہ کرکے ان کے لیے مستقبل میں مشغلے کی تعین کردیں ، اگر وہ تصنیف وتالیف سے دلچسپی رکھتا ہے تو اسے مستقبل میں اسی کام کو انجام دینے کو کہیں تاکہ وہ طالب علمی کے زمانہ ہی سے اس میں دلچسپی ولگن محنت ومشقت، جانفشانی اورعرق ریزی سے کام لے ۔ بلاشبہ ایسے ہی بچے مستقبل میں کامیاب ہوتے ہیں جو کوئی مقصد اور ہدف سامنے رکھ کر پڑھتے ہیں خواہ انہیں مقصد بروقت ملے یا نہ ملے، لیکن اپنے ہدف سے پیچھے نہ ہٹیں ، اسی میں لگے رہیں ، ان شاء اللہ، ایک نہ ایک دن وہ ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ طلباء کے لیے ایک لمحہ فکریہ! مان لیاکہ طالب نے بہت ہی محنت ومشقت سے تعلیم حاصل کی لیکن وہ اپنا کوئی ہدف متعین نہ کر سکا جس کی وجہ سے اسے بروقت کامیابی نہ مل سکی تو وہ پھر دوبارہ خود سے پڑھے اوروہ یہ جان لے کہ تعلیم کا سلسلہ موت تک چلتا رہتا ہے، مدرسہ میں تو اس نے صرف پڑھنا سیکھا ہے، اصل پڑھائی فراغت کے بعد شروع ہوتی ہے، ان شاء اللہ، ایک سال یا دو سالوں کی کڑی جد وجہد کے بعد وہ اپنی منزل مقصود کو پالے گا۔ اسی طرح لڑکے کی کامیابی کے ذمہ دار بھی والدین ہوتے ہیں ، اگرلڑکا فراغت کے بعد کامیاب نہ ہوسکا ، والدین لڑکے کو جیسا دیکھنا چاہتے تھے ویسا نہ بن سکا ، تو اس کی ہمت وحوصلہ کو پست نہ کریں ، بلکہ اسے ایک سال یا دو سال مزید موقع دیں اورہر طرح سے اس کی ہمت افزائی کریں کیونکہ وہ ان اوقات میں جن تلخ تجربات سے گزرا ہے اسے اس کا خود احساس ہے اور اب اسے کلاس کی دسیوں کتابوں کا بار نہیں ڈھونا ہے بلکہ اب اسے صر ف اسی
Flag Counter