Maktaba Wahhabi

230 - 379
ہے کہ اس کے لیے کوئی الگ کاپی بنالے تاکہ بعد میں بھی اس سے استفادہ کر سکے۔ اسی طرح اپنے مشاہدات اورتجربات سے بھی بچوں کو روشناش کرایا جائے ، اگربچہ دینی تعلیم حاصل کررہا ہے تو اپنا یہ تجربہ بتلا سکتا ہے کہ جب میں دینی مدرسہ میں طالب علم تھا تو بہت محنت سے پڑھتا تھا اور میری یہی کوشش ہوتی تھی کہ دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ ہوکر دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دوں ، لوگوں کو صحیح راستے اورصحیح عقیدے کی تعلیم دوں گا اور یہ جذبہ مجھے انبیائے کرام، خصوصا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پڑھ کر ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کے بارے میں جان کر، نیز بڑے بڑے واعظین اور مقررین کی تقریریں سن کر ہوا، یا میں نے طالب علمی کے زمانے میں یہ تہیہ کرلیا کہ میں صحافت اور ترجمہ وتالیف کا کام انجام دوں گا، اس لیے میں نے اسی نہج سے پڑھناشروع کیا، اس کے لیے زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کیا ، درسیات کے بعد دوسری تمام مصروفیات ومشغولیات کو اسی کے نذر کردیا اوربڑے بڑے مصنفین کی کتابیں پڑھیں جس سے مجھے تصنیف وتالیف کا ذوق وشوق پیدا ہوا۔ آدمی جس لائن میں ہو اس میں اس قدر صلاحیت ولیاقت پیدا کرلے کہ منزل اسے خود پکارے وہ خود اس کے پیچھے نہ دوڑے ، ہر وقت اور ہر دور میں باصلاحیت لوگوں کی اشد ضرورت ہے اور ان شاء اللہ رہے گی ۔ یہاں والدین ، اساتذہ اور ذمہ داران مدرسہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ بچے اپنی عمر کے کافی اوقات حصول علم میں گزاردیتے ہیں لیکن جب پڑھ کر نکلتے ہیں تووہ احساس کہتری کا شکار ہوجاتے ہیں ، جب نوکری کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے ہیں ، کمپیٹیشن میں پارٹیسیپیٹ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک کمزور اور ضعیف طالب علم محسوس کرتے ہیں ، نہ وہ عربی، اردو اورانگلش میں اچھی طرح باتیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی کچھ لکھ سکتے ہیں ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے، میں اس کا ذمہ دار مدارس کے ذمہ داران،
Flag Counter