Maktaba Wahhabi

153 - 379
اخلاق وکردار سے ان کے ساتھ ہم آہنگی ویگانگت نہ رکھے، ایک انسان جب تک دوسرے کا سہارا نہ بنے، ساتھ نہ دے، اس کے دکھ، درد نہ بانٹے ، غمی وخوشی میں شریک نہ ہو، اس وقت تک اچھے معاشرے کا فرد نہیں بن سکتا اور ان میں بھی جو سب سے زیادہ حسن سلوک اور محبت کے حق دار ہیں وہ ہیں اپنے قرابت دار ورشتہ دار۔ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے احوال وکوائف کے مطالعے سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ آدمی اپنے قریبی رشتہ داروں سے عداوت ودشمنی، نااتفاقی اور دوری اختیار کرتاہے لیکن دوسروں کے ساتھ دوستی وقربت اور محبت والفت رکھتا ہے۔ تمام معاملات میں اسلام نے پہلے قرابت داروں کا حق رکھا ہے اس کے بعد پڑوسی اور گاؤں کے اندر بسنے والوں کا، انسان اپنوں سے بیزاری برتتا ہے، لیکن جب کوئی آفت ومصیبت آپڑتی ہے تو اس کے اپنے قریبی رشتہ دار ہی وقت پہ کام آتے ہیں ، ماں باپ بچوں کے ساتھ اگرچہ وقتی طور پہ ان کے اخلاق وکردار اور طور طریقے سے تنگ آکر ناراض ہوجاتے ہیں لیکن ان کے دل ودماغ سے بچوں کا پیار ومحبت کبھی جدا نہیں ہوتی، وہ کبھی اپنے بچوں کی تباہی وبربادی یا انہیں مصیبت وپریشانی میں دیکھنا نہیں چاہتے اور جب بھی ان کے اوپر کوئی رنج وغم اور کوئی آفت ومصیبت دیکھتے ہیں تو چیخ اٹھتے ہیں اور ان کی مدد واعانت کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اسی طرح بھائی بہن ہیں گرچہ وقتی طور پہ ان کے درمیان نااتفاقی ہوتی ہے لیکن جب ایک دوسرے کو کسی ناگہانی آفت ومصیبت میں دیکھتے ہیں تو فوراً مدد کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اسلام نے جو بھی احکام وفرامین حضرت انسان کے اوپر عائدکیے ہیں ان کے پیچھے بہت ساری حکمتیں اور مصلحتیں کار فرما ہیں جن کا ہم مشاہدہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں ۔ قرابت داروں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کرنا یہ انسان کے سب سے پہلے اور عظیم حقوق میں سے ہیں ، دنیاوی اعتبار سے مالی امداد کرنا ، خبر گیر ی کرنا ، ان کے حالات وکوائف معلوم کرنا ، مصیبت وپریشانی میں ان کا ساتھ دینا ، ہر اعتبار سے ان کے
Flag Counter