معرض وجود میں آئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: ۵۶)
’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘
اور یہ کہ اللہ کے ساتھ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، خواہ وہ پیر، ولی، مقرب فرشتہ اور مبعوث کیے گئے نبی ورسول ہی کیوں نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَــلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًاo﴾ (الجن: ۱۸)
’’اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہیں ، پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
نیز ارشاد ربانی ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًاo﴾ (النساء: ۴۸)
’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتاہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے۔ پس اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی معرفت ہی دراصل اس کی محبت ہے اور جو اس کی معرفت حاصل کر لیتا ہے وہ دنیاوی عیش وعشرت کے درپے نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کی محبت پانے کے لیے دنیا سے قطع تعلق اور زہد وقناعت کی زندگی گزارتا ہے اور جیسے جیسے معرفت میں تقویت ہوتی ہے محبت الٰہی میں اضافہ اور تقویت ہوتی ہے اور جب محبت الٰہی میں روز افزوں اضافہ ہوتاہے تو اس سے اس کی عبادت وطاعت میں بھی اضافہ ہوتاہے اور اللہ کی عبادت وبندگی اس اعلی محبت کے ساتھ سرور وانبساط اور لذت وراحت کا باعث ہوتی ہے اور یہ یقینی بات ہے جو شخص اللہ کی، اس کے اسماء
|