دعوت دی لیکن سب نے انکار کردیا، مزید برآں سخت بدسلوکی سے پیش آئے اور اپنے شہر سے نکل جانے کو کہا بلکہ انہوں نے زبردستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہر سے نکل جانے پر مجبور کردیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مایوس ہوکر واپس ہونے لگے تو ان لوگوں نے اوباش اور شریر لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگادیا، یہ اوباش گالیاں دیتے، تالیاں پیٹتے، شور مچاتے، اور بد زبانی کرتے، یہاں تک کہ ان بد معاشوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے پتھر برسائے کہ ایڑی پر زخم کی وجہ سے جوتے خون میں تربتر ہوگئے ، ان بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ مجبوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک باغ میں پناہ لینا پڑی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پناہ لی تو اوباشوں کی جماعت واپس چلی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے، قدرے اطمینان ہوا تو اللہ کے حضور دعا فرمائی اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ طائف والوں کی بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر رنجیدہ تھے اور آپ کے احساسات وشعور پر حزن والم اور غم وافسوس کا کس قدر غلبہ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں یہ دعا مانگی:
’’یا اللہ!میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں ۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے جس کو تونے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا وآخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور آور طاقت نہیں ۔ ‘‘
|