Maktaba Wahhabi

48 - 379
۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلالی پیغمبر تھے ، وہ ایک ایسی قوم کی طرف بھیجے گئے تھے جو بہت ہی شریر اور نافرمان تھی، اس وقت کا بادشاہ فرعون بہت ہی ظالم وجابر تھا، ملکیت وسلطنت اور بادشاہت و حکمرانیت کا طاغوت اس پہ اس قدر غالب تھا کہ وہ خود کو اللہ بنا بیٹھا تھا، اس وقت موسیٰ کلیم اللہ کے اندر اللہ کی محبت کی طاقت وقوت کا ر فرماں تھی کہ خود کو خدا اور مالک کل کہنے والے کے سامنے کلمہ توحید کا پرچم لہرانے سے باز نہ آسکے، اللہ سے ان کی بے پناہ محبت وشیدائیت کا ہی نتیجہ ہے کہ قرآن کریم میں تمام نبیوں سے زیادہ ان کا ذکر آیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے بے انتہا محبت ولگن تھی ، اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں شریعت اور اپنے احکام دینے کے لیے کوہ طور پر طلب کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر آدمیوں کے ساتھ ندائے الٰہی کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اللہ کی محبت اور شوق دیدار سے اس قدر مغلوب ہوئے کہ اپنی قوم کو پیچھے ہی چھوڑ کر جلدی جلدی اکیلے ہی کوہ طور پر پہنچ گئے، اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا: ﴿وَ مَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰیo﴾ (طٰہٰ:۸۳) ’’اے موسیٰ! کونسی چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی؟‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے محبت بھرے لفظوں میں جواب دیا: ﴿وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰیo﴾ (طٰہ: ۸۴) ’’ اے میرے رب! میں نے جلدی اس لیے کی تاکہ تو خوش ہوجائے۔‘‘ ۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف کا واقعہ بہت ہی دردناک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اسلام کی دعوت دینے کے لیے تشریف لے گئے، راستے میں جس قبیلے سے گزر تے اسے اسلام کی دعوت دیتے، لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی ، طائف میں دس دنوں تک قیام فرمایا ، اس دوران ان کے ایک ایک سردار کے پاس گئے اور ہر ایک کو اسلام کی
Flag Counter