Maktaba Wahhabi

47 - 379
وقت نمرود نے آپ کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا اور آپ کی آنکھوں کے سامنے آگ کے شعلے بھڑکائے جانے لگے ، جس کی یاد سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، لیکن اس وقت بھی آپ کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش پیدا نہ ہوئی اور محض محبت الٰہی کی بنا پر آتش نمرود میں کودنا گوارہ کرلیا ۔ اسی طرح اسی (۸۰) سال کی عمر میں بہت تمناؤں اور دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بچہ عنایت فرمایا، اس ضعیف العمری اور ناتوانی کے عالم میں عطیہ الٰہی کو پاکر میاں بیوی بہت خوش ہوتے ہیں ، سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ ان کی دعاؤں کا پھل مل گیا، بڑھاپے کا سہارا مل گیا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، اللہ کا حکم آتا ہے کہ اے ابراہیم! اپنے لخت جگر اسماعیل اور اپنی غم گسار بیوی ہاجرہ کو تن تنہا، بے آب و گیاہ، لق ودق، سنسان ریگستان میں چھوڑ آؤ۔ قربان جایئے حضرت ابرہیم علیہ السلام پر اور ان کی محبت الٰہی پر کہ انہوں نے اس امر کی تعمیل میں ایک ثانیہ کے لیے بھی تامل نہیں کیا اور حکم الٰہی کو بسر وچشم بجالانے کے لیے فوراً بیوی اور بچے کے ساتھ سوئے سفر روانہ ہوگئے۔ پھر چند سالوں کے بعد ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ کا حکم آتا ہے کہ اے ابراہیم ! اپنے فرزند ارجمند کو میرے راستہ میں قربان کردو، اس وقت ایک باپ اپنے لخت جگر کو اپنے ہی ہاتھوں قربان کرنے میں تأمل کرسکتا ہے، ہچکچاہٹ محسوس کر سکتا ہے، لیکن قربان جایئے اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام پر، بیٹے کی محبت اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں رکاوٹ نہ بن سکی اور یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی زندگی میں اللہ کی محبت تمام چیزوں کی محبت پر غالب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی تعریف ان لفظوں میں بیان فرمائی: ﴿وَاِِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی﴾ (النجم: ۳۷) ’’ابراہیم تووہ ہے جس نے وفاداری کا حق ادا کردیا۔‘‘
Flag Counter