وہ بری محبت ہو یا اچھی۔[1]
تاریخ اسلام اللہ کے ساتھ ایمان والوں کی محبت سے بھڑی پڑی ہے، سلف و صالحین نے اللہ کی خاطر اسلام کی راہ میں کس قدر تکلیفیں برداشت کیں ، مصیبتیں جھیلیں ، جن کی یاد سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، دل دہل جاتاہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، اللہ تعالیٰ پہ ان کا ایمان اور اس سے محبت اس قدر تھی کہ وہ عذاب وسزا میں حلاوت ومٹھاس محسوس کرتے تھے ، یہ سوچ کرکے انہیں ایک دن اپنے محبوب سے ملنا ہے اور آخرت میں سرخرو ہوناہے ۔
سب سے پہلے انبیائے کرام اور رسل عظام نے صدق دل سے اللہ سے محبت کی اور اسی والہانہ محبت الٰہی کا نتیجہ تھاکہ اس کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچا نے میں جو دشواریاں اور مصیبتیں آئیں انہوں نے اسے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا، ان کی زندگیاں اللہ تعالیٰ سے محبت کا بہترین نمونہ ہیں ، یہاں چند نبیوں کے واقعات قلم بند کیے جارہے ہیں :
۱۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے جب اپنے باپ آذر کو توحید کی دعوت دی، ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت وپرستش کی طرف بلایا تو اس نے محض آپ کی دعوت کا انکار ہی نہیں کیا بلکہ انہیں گھر سے نکل جانے کا حکم دیا ، یہاں ہم سوچ سکتے ہیں کہ اس وقت ابراہیم علیہ السلام کے دل ودماغ پہ کیا گزری ہوگی، یہ وہی انسان سمجھ سکتا ہے جسے والدین سے الگ ہونے کا موقع ملاہو، اب یہاں ان کے سامنے دوراستے تھے یا تو اللہ سے دوستی اور محبت کی بنا پر اپنے والدین، اعزہ واقارب، زمین و جائیداد اور گھر بار کو داغ مفارقت دے دیں یا اللہ کو چھوڑکر اپنے والدین کے ساتھ رہیں ، لیکن ان کا دل اللہ کی محبت ودوستی سے اس قدر معمور تھا کہ انہوں نے ساری دنیا کی دولت کو اللہ کی محبت کے سامنے قربان کردیا اور اللہ کے پیغام وحکم کو دوسروں تک پہنچا نے کے لیے میدان عمل میں کود پڑے، اسی محبت الٰہی اور عقیدہ توحید سے محبت کا نتیجہ تھا کہ جب بادشاہ
|