کتنے ہی نگاہوں کو ڈھیلا چھوڑنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کی نظر واپس آتی ہے تو وہ کسی مقتول کے خون میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہے؛ جیسا کہ کہا گیا ہے :
’’ اے دیکھنے والے ! کیا اس کی نظریں نہیں بھریں گی یہاں تک کہ وہ کسی قتل کو اپنے سامنے خون میں لتھڑا ہوا چھوڑ دیں ۔‘‘
اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ نظر کا زخم ہمیشہ دل میں لگتا ہے اور پھر اس کے بعد زخم لگتے ہی جاتے ہیں ۔ پھر ان زخموں کی تکلیف بار بار ایسی ہی چیزوں کی طلب کرتی ہے اور کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ شاعر کہتا ہے:
’’ تو برابر نظر کے پیچھے نظر دوڑاتا رہا، اور ہر ایک خوبصورت مرد اور عورت کو دیکھتا رہا، اور تو یہ سمجھتا رہا کہ ایسے دیکھنا تیرے زخموں کی دواء ہے۔ حقیقت میں وہ تو زخم پر ایک اور زخم ہے۔ تو نے نظریں لڑا کر اور رو رو کر اپنی نظر کو ذبح کر ڈالا، اور تیرا دل تو بُری طرح ذبح ہوکر رہ گیا ہے۔ ‘‘
یہ کہا گیا ہے کہ ’’ نظر کو کچھ دیر کے لیے قابو میں کرنا ہمیشہ کے لیے حسرت و الم کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے۔ ‘‘[1]
بے شک جو آدمی حرام کی طرف دیکھتا ہے ، اس کا حال اس انسان کا سا ہے جو سمندر سے پانی پیتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی پیاس بجھ سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔ بلکہ وہ جتنا بھی پئے گا اس کی پیاس اتنی ہی بڑھے گی۔ ایسے ہی شہوت کی نظر سے دیکھنے پر طلب اور زیادہ بڑھتی ہے کسی طرح بھی کم نہیں ہوتی۔
جو انسان اس حدیث پر غور کرے گا جو کہ آنکھوں کی خیانت اور گناہ میں واقع ہونے کے درمیان ربط کو بیان کرتی ہے ، تو اس کے لیے [بد نظری کا خطرہ ]واضح ہوجائے گا۔
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں :
|