Maktaba Wahhabi

354 - 379
سے افکار جنم لیتے ہیں ۔ ان افکار سے شہوات جنم لیتی ہیں ۔ شہوات سے ارادے بنتے ہیں ۔ یہ ارادے پختہ ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ عزم مصمم بن جاتے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں لازمی طور پر فعل واقع ہوجاتا ہے جب تک کہ اس میں کوئی رکاوٹ نہ پیش آجائے۔ اسی بارے میں کہا گیا ہے کہ : ’’ نظر کو جھکانے پر صبر کرنا بہت آسان ہے بہ نسبت اس دکھ اور تکلیف کے جو کہ نظر پڑنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘ بد نظری کی آفات میں سے یہ بھی ہے کہ یہ اپنے پیچھے حسرت و الم چھوڑ جاتی ہے۔ اس لیے کہ انسان بعض اوقات ایسی چیز دیکھتا ہے جس کے حاصل کرنے پر اسے کوئی قدرت بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اس کے بغیر صبر کرسکتا ہے۔‘‘[1] یہ لوگ جو بازاروں کی طرف جاتے ہیں اور عورتوں کو تاڑتے ہیں اور وہ عورتیں بھی بے پردگی کی حالت میں ہوتی ہیں تو ایسے لوگوں کے دل حسرت و الم کی آگ میں جل جل کر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جاتے ہیں ۔ کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے اکثر بد نظری کا آخری انجام تو زنا نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان ان کے ساتھ کسی حرام کاری کے لیے جاتا ہے ( پھر اس کی ممانعت کیوں ہے )؟ [ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں :] بے شک اس قسم کی بدنظری کا انجام اکثر حسرت و الم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ انسان اپنے سامنے ایک ایسا فتنہ دیکھتا ہے جس تک پہنچنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا توایسا انسان حسرت و الم کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے، اور بیشتر اوقات اپنے مقصود تک پہنچنے کی کوشش بھی کرتا ہے ، مگر اس میں ناکام ہوجاتا ہے ، اس وجہ حیرانگی اور ہائے افسوس کرنا ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ انسان کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے کہ آپ ایسی چیز دیکھیں جس سے آپ صبر نہیں کرسکتے اورنہ ہی اس کا کچھ حصہ آپ کو کفایت کرسکتاہے اور نہ ہی آپ اس کو حاصل کرنے پر قادر ہیں ۔‘‘
Flag Counter