قرآن وحدیث کے اندر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًاo﴾ (النساء: ۳۶)
’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں ، (غلام و کنیز) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
اکثر لوگ پڑوسیوں کے معاملات میں تساہلی اورغفلت سے کام لیتے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ حسن معاملگی کرنا ، تکمیل ایمان کی لازمی شرط اور انسان کے صالح ومتقی ہونے کی دلیل ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، قِیْلَ مَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَا یَاْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ۔))[1]
’’اللہ کی قسم! مومن نہیں ہوتا ، اللہ کی قسم! مومن نہیں ہوتا، اللہ کی قسم! مومن نہیں ہوتا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ! کون؟ فرمایا، جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔‘‘
دوسر ی حدیث میں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم
|