پہ ایک دوسرے کے حقوق ٹھہرائے ہیں ، باہمی تعلقات خوش گوار رکھنے اور ایک دوسرے کو ملائے رکھنے کی تلقین کی ہے ، باہمی افادیت کے تحت پڑوسی کو آپس میں میل جول اورپیار ومحبت رکھنے کا حکم دیا ہے ۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی پہ کوئی ناگہانی آفت ومصیبت آجاتی ہے ، دوسروں کو اس کی خبر تک بھی نہیں ہوتی لیکن پڑوسی بغیر اطلاع کے فوراً حاضر ہوجاتاہے اور جہاں تک اس سے ممکن ہوتاہے اپنے پڑوسی بھائی سے اس مصیبت کو دور کرتاہے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی مدد کی اپیل کرتا ہے، اخلاقی اعتبار سے بھی آدمی کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ پڑوسی کے ساتھ اچھے طریقے اور خوش اخلاقی سے پیش آئے، پیار ومحبت ، صدق و وفا، اخوت وبھائی چارگی، مواسات ورواداری، وہمدردی ورحم دلی اورو شفقت ومہربانی کا ثبوت دے، اس کی ہر خوشی و غمی میں شریک ہو، اسے اپنے گھر کا ایک فرد سمجھے، اسے ہر ممکن طریقہ سے نفع پہنچائے اور نقصان کو اس سے دور کرے ، مشورہ طلب کرے تو اچھا مشورہ دے ، اس کے حالات وکوائف سے آگاہ رہے، اس سے برابر ملاقات کرے ، دینی ودنیوی معاملات میں اگر کوئی کمی وکوتاہی دیکھے تو فوراً اسے دور کرے اور اس کے بچوں میں اگر کوئی غیر اخلاقی اور نازیبا حرکت دیکھے توفوراً ان کی اصلاح کرے ، کیونکہ بچے ایک دوسرے کے اثرات وحرکات بہت جلد قبول کرلیتے ہیں اور پڑوسی کے بچے چونکہ برابر ساتھ ہی رہتے ہیں ، گھروں میں آنے جانے پہ پابندی نہیں رہتی، ان کے ساتھ اپنے بچوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، اس لیے اگر ان میں کوئی قابل اعتراض چیز دیکھے توفورا اس کی اصلاح کرے ، اسی طرح پڑوسی کے ساتھ ہمیشہ خیر خواہی کا رویہ اپنائے ، اس کی حرکات وسکنات، دوسروں کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے ، داخلی اور خارجی اس کے تمام معاملات پہ کڑی نگاہ رکھے تاکہ ایسا نہ ہوکہ دوسرے غلط اور بیہودہ لوگوں کی سنگت میں پڑکر خود بھی تباہ وبرباد ہو اور اپنے پڑوسی کو بھی تباہی وبربادی کی شاہراہ پہ لاکھڑا کر دے ۔
|