Maktaba Wahhabi

241 - 379
کھلارکھے۔ انسان مختلف قریبی رشتوں میں بندھا رہتاہے لیکن سب کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت ، مدد وتعاون اور شفقت وہمدردی کا رویہ اپنایا جائے، رشتہ داروں میں سبھی رشتہ دار غالبا قریب میں نہیں رہتے ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ دار دور ہی رہتے ہیں ، جن سے کافی دنوں کے بعد ہی ملاقات ہوپاتی ہے مثلاً والدین، اکثر ایسا ہوتاہے کہ شادی کے بعد بچے والدین سے الگ ہی رہتے ہیں یا کہیں باہر تجارت وسوداگری میں منہمک ہوتے ہیں تو وہی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکونت پذیر ہوجاتے ہیں یا والدین خود اپنے کاموں میں ایسی جگہ مشغول ہوتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملتا ، صرف عید وبقرعیداور شادی وبیاہ میں ملاقات ہوتی ہے، اس اعتبار سے اتنے قریبی رشتے وقت کے تقاضے کی بنا پر ہمیشہ بچھڑے رہتے ہیں ، بہنیں اوربیٹیاں اکثر شادی کے بعد دور ہی رہتی ہیں ، کسی خاص موقع سے ہی ملاقات ہوپاتی ہے، بھائی ، چچا اوردوسرے قربی رشتہ دار اپنے اپنے ہی کاموں میں مگن رہتے ہیں کبھی کبھار ہی ملاقات ہوپاتی ہے ۔ لیکن ان تمام قریبی رشتہ داروں ، قرابت داروں اور دوست واحباب کے علاوہ کچھ ایسے رشتے اور ناطے ہیں ، کچھ ایسے دوست واحباب بھی ہیں جو اجنبیت کے باوجود ہمیشہ ساتھ رہنے والے، قرب وجوار میں رہنے والے، خوشی وغمی کے ساتھی اور آفت ومصیبت میں کام آنے والے ہیں اور وہ ہیں پڑوسی وہمسایہ، جیران ونائبور، ہم جہاں بھی رہتے ہیں خواہ وقتی طور پہ ہوں یا مستقل طور پہ ، پڑوسیوں سے ہمیشہ سابقہ رہتاہے اوراصل فائدے کی چیز وہی ہے جو وقت پہ کام آئے اور بلاشبہ پڑوسی ہی ایسے افراد ہیں جو ہمیشہ وقت پہ کام آتے ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ معاشرت وتمدن کے اعتبار سے سب سے زیادہ فائدہ مند پڑوسی ہیں اور حسن سلوک کے اعتبار سے اللہ ورسول، والدین اور بیوی بچوں کے بعد سب سے زیادہ یہی حق دار ہیں ، اسی لیے اسلام نے اس رشتہ کو قائم ودائم رکھنے کی تاکید کی ہے، ان
Flag Counter