کے پاس برابر بھیجتے رہے کہ وہ آپ کو پڑوسی کے حقوق کی حفاظت او ران کی ادائیگی کی تلقین کریں ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَا زَالَ جِبْرِیْلُ یُوصِینِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ أَ نَّہُ سَیُوَرِّثُہُ۔)) [1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے جبریل ہمیشہ ہمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ عنقریب وہ اسے وارث بنا دیں گے ۔‘‘
مذکورہ قرآنی آیتوں اور احادیث رسول سے یہ واضح ہوتاہے کہ ہمارے اوپر پڑوسی کے کتنے زیادہ حقوق ہیں اور وہ کس قدر حسن سلوک اور حسن معاشرت کے حق دار ہیں ، اسی طرح پڑوسی کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کریں کہ وہ آپ سے ڈروخوف محسوس نہ کرے، اپنی عزت وعصمت اور مال ودولت کو محفوظ سمجھے ، ان ساری تاکیدوں کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ ، پڑوسی بھی ہمارے رشتہ داروں کی طرح ہے، جس طرح رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ہمارے اوپر واجب ہے بعینہ پڑوسی کے حقوق ادا کرنا بھی ہمارے اوپر ناگزیر ہے۔یہاں پڑوسی کے چند حقوق قلم بند کیے جارہے ہیں جو اس حدیث کے اندر بتلائے گئے ہیں :
((عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال من أغلق بابہ دون جارہ مخافۃ علی أہلہ ومالہ فلیس بمؤمن ولیس بمؤمن من لم یأمن جارہ بوائقہ أتدری ماحق الجار؟ إذا استعانک أعنتہ، وإذا استقرضک أقرضتہ، وإذا افتقر عدت علیہ، وإذا مرض عدتہ، وإذا أصابہ خیر ہنأتہ، وإذا أصابتہ مصیبۃ عزیتہ، وإذا مات اتبعت جنازتہ، ولاتستطل
|