پابند بنائیں ، کیونکہ بچوں کی یہ عمر تعلیم اور مسلسل ٹریننگ کی محتاج ہے، آج ان پہ جد وجہد کی جائے گی تو کل وہ نماز اور شرائع اسلام کے پابند ہوں گے اور مستقبل میں جب ان کے کندھوں پر بھی بیوی ، بچوں کی ذمہ داریاں آئیں گی تو وہ بحسن وخوبی انجام دیں گے۔
بچوں کو نماز کی تعلیم اور ٹریننگ کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ایسی دینی درس گاہ میں ابتدائی تعلیم کے لیے بھیجیں ، جہاں پنج وقتہ نمازیں اساتذہ کی زیر نگرانی ادا کی جاتی ہوں اور اساتذہ کی زیر نگرانی بچوں کو صبح وشام رہنا پڑتا ہو، نماز ایسی چیز ہے کہ اگر بچپن میں بچوں کو اس کا عادی نہ بنایا گیا، اس کی باضابطہ ٹریننگ نہ دی گئی ، خواہ اساتذہ اس کے لیے ڈنڈے اور تادیبی کاروائیاں ہی کیوں نہ کریں ، میں پورے وثوق واعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اساتذہ کے ڈنڈے بچے نہیں کھائیں گے، اس وقت تک وہ نمازی نہیں بن سکتے ، دینی درس گاہ میں نماز کی ادائیگی کے اوپر خاصی توجہ دی جاتی ہے اور اساتذہ کرام باضابطہ اس فرض کی ادائیگی میں سستی وکاہلی برتنے والے طلبہ کو سخت سزا دیتے ہیں ، والدین بسا اوقات بچوں کے ساتھ غفلت برتتے ہیں ، نماز کی عدم ادائیگی پہ اتنی زجر وتوبیخ اور گرفت نہیں کرتے جتنا کہ اساتذہ سخت نوٹس لیتے ہیں ۔
اور نماز کی عدم ادائیگی پر سخت نوٹس لینا اور ان پر ڈنڈے برسانے کا حکم خو د صادق المصدوق، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، جس کے اندر بہت ساری حکمتیں اورمصلحتیں کارفرماں ہیں ، جسے آج کے ناخواندہ اور مغربی تہذیب وثقافت کے دلدادہ والدین نہیں سمجھتے۔
بلاشبہ دینی ادارے ایک ایسے ٹریننگ سنٹرز ہیں ، جہاں سے نمازی، صوم وصلاۃ کے پابند، اخلاق وکردار کے پیکر، کتاب وسنت کے عالم، متقی وپرہیزگار، صالح ونیکو کار اور اسلام کے داعی ومبلغ تیار کیے جاتے ہیں ، جن کی گوناگوں خوبیوں اور خدمات سے چہاردانگ عالم مہک اٹھتا ہے، جو لوگ عصری تعلیم کے دلدادہ ہیں ، ان کے بچے کبھی پکے نمازی نہیں بن سکتے، زندگی بھر اصلاح وسدھار اور دعوت وتبلیغ کے محتاج رہیں گے، توکیوں نہ ہم اپنے بچوں کی عہد طفولیت ہی سے ایسی تربیت کریں کہ وہ علم وعمل کے پیکر بن کر دنیاوی زندگی میں قدم
|