متاثر ہوتاہے اور اسے جو کچھ کرتے دیکھتا ہے وہ بھی ویسا ہی کرنے لگتا ہے، بہر صورت میں شروع ہی سے سنجیدہ تھا اور ماں کو نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھتا تھا تو میں بھی ویسا ہی کرتاتھا جیسا کہ تمام بچے کرتے ہیں ، دوسری طرف والدمحترم صاحب (جوابھی سعودی عرب میں ہیں ، جریدہ الریاض میں کام کرتے ہیں ) بھی بہت دیندار تھے، صوم وصلاۃ کے بہت پابند تھے اور آج بھی الحمد للہ اس پہ قائم ودائم ہیں ، آج بھی ایک وقت کی نماز ان سے قضا نہیں ہوتی ہے، فجر کی نماز روزانہ باجماعت اداکرتے ہیں ، بچپن میں مجھے یاد ہے کہ جو استاد مکتب میں پڑھاتے تھے گاؤں کے چند لوگوں سے ان کی کافی گہری دوستی تھی ، وہ لوگ اکثر ادائیگی نماز کے بعد مسجد ہی میں بیٹھے رہتے ، قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور دینی باتوں پہ تبادلہ خیال کرتے ، چونکہ مسجد میرے گھر سے بالکل متصل تھی جیسے ہی آذان ہوتی میں دوڑ کر مسجد میں جاتا، جیسا کہ بچوں کی فطرت ہے، آج بھی بچے آذان سن کر مسجدوں کی طرف دوڑتے ہیں ، جب کہ ان کے والدین گھروں میں محو گفتگو ہوتے ہیں ، اگر بچوں کے ساتھ ان وقتوں میں ان کا ساتھ دیاگیا اور جیسے وہ دوڑکر مسجدوں میں جاتے ہیں انہیں اس کا عادی بنادیاگیا تو وہ بڑے ہونے پر بھی مسجدوں کی طرف دوڑیں گے، لیکن بچوں کی صحیح راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے جیسے جیسے عمریں بڑھتی جاتی ہیں ، ویسے ویسے مسجدوں سے کنارہ کشی احتیار کرتے چلے جاتے ہیں ، بہر صورت میں جب بھی مسجد میں جاتا وہاں اپنے ابا جان کو موجود پاکر ان کے پاس چلاجاتا ، اس طرح سے مجھے نماز کی طرف رغبت میں کافی مدد ملی اور الحمد للہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، مجھے یاد نہیں ہے کہ کوئی نمازجان بوجھ کرچھوڑا ہوں ، ہاں بشری تقاضے کے مطابق اگر کبھی نماز قضا ہوگئی ہے تو اس کی فورا ادائیگی کی ہے۔
بہر صورت اپنی فوقیت وبرتری بتانا مقصود نہیں اور نہ ہی انسان اس کا اہل ہے، بلکہ بتانا مقصود یہ ہے کہ اگر والدین نمازی ہیں تو ان کی کوششوں سے بچے، ان شاء اللہ نمازی ہوں گے، والدین اور گھر کے ذمہ داران سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ بچپن ہی سے بچوں کو نماز کا
|