اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ذریعے سے دے رہے ہیں ، قرآن کریم نے ان الفاظ میں والدین اور مومنوں کو خطاب کیا ہے:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o﴾ (التحریم:۶)
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتاہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں ۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو ان الفاظ میں خطاب کیا:
((مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَہُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِینَ وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ ۔))[1]
’’سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دو (اور اگر نہ پڑھیں تو) دس سال کی عمر میں انہیں مارو اور ان کے بستر بھی علیحدہ کردو۔ ‘‘
اس کے بعد ہم اپنے معاشرے سرسری طور پر جائزہ لیتے ہیں اور والدین کی طرف سے سستی اور غفلت برتنے کے انجام کار اور اس کے حل کے لیے چند تجاویز پیش کرتے ہیں ۔
جیسا کہ پہلے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے کہ بچہ انہی چیزوں کو اپناتاہے جووالدین اور قرب وجوار کے لوگوں اور ہم عمربچوں کو کرتے ہوئے دیکھتاہے، اب ہم چونکہ خود نماز نہیں پڑھتے، مسجدوں میں نہیں آتے، نیکی وبھلائی کے کاموں میں حصہ نہیں لیتے، تو بچے جو برابر دیکھتے ہیں کہ ہمارے والدین مسجدوں میں نہیں جاتے ہیں اورنماز ادا نہیں کرتے ہیں تووہ کیونکر نماز پڑھنا سکھیں گے اور ان کو نماز کی تعلیم کون دے گا ، حالانکہ بچوں کو ابتداء ہی سے
|