پہ دنیاوی اور عصری تعلیم کی فوقیت وبرتری کا نتیجہ مل گیا ۔
اسلام نے انسانوں کو ہر اس جائز طریقہ کو اپنانے کا حکم دیا ہے جو انسان کا ، معاشرے کا اور اسلام کی سربلندی کا ذریعہ ہو اور یہ ساری چیزیں اسی وقت حاصل ہوسکتی ہیں ، جب ہم دینی ودنیاوی تمام معاملات میں کتاب وسنت کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہوں ، اسلام عصری اور دنیاوی تعلیم سے روکتا نہیں ہے بلکہ اسے حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ بند ہ اپنی حقیقت اوراپنے مالک حقیقی کو نہ بھولے، اکبر الہ آبادی نے کیا ہی خوب کہا ہے:
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
لیکن ایک بات بندہ اکبر کی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
بچے کی پیدائش سے لے کر جوانی تک ہر چیز کی طرف راہنمائی کرنا ، اس کے لیے تعلیم وتربیت کا بندوبست کرنا، اچھے اخلاق وکردار کا مالک بنانا، صالح ونیک صفت والا انسان بنانااور صوم وصلوٰۃ کا پابند بنانا والدین پہ ضروری ہے اور ان جگہوں پہ آنے جانے سے روکنا جہاں سے اسے غلط راہ پہ لگنے کا اندیشہ ہو ، بچپن میں زیادہ توجہ دینی تعلیم پہ ہو ، اسلام نے دینی تعلیم کے حاصل کرنے کو واجب قرار دیا ہے، جس کا سیکھنا اور پڑھنایکساں طور پر تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پہ فرض ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((طَلَبُ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔))[1]
’’یعنی تمام مسلمانوں پر علم دین حاصل کرنا فرض ہے ۔‘‘
اس حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علم دین کا سیکھنا اور سکھانا کتنا ضروری ہے، دنیاوی اور عصری تعلیم کا درجہ دینی تعلیم کے بعد ہے ، بچے کو قرآن وحدیث سے اتنی واقفیت کرا
|