((اَ لَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ فَالْإِمَامُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَہْلِ بَیْتِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلَی أَہْلِ بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہِ وَہِیَ مَسْئُولَۃٌ عَنْہُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَیِّدِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُ أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ)) [1]
’’سنو! تم سب اپنی رعیت کے محافظ ہو اور تم سب سے رعیت کی بابت پوچھا جائے گا تو حاکم جو لوگوں کی اصلاح کے لیے مقرر کیا گیا ہے رعیت کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعیت کے احوال کے بارے میں پوچھا جائے گا ، مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے او روہ اپنی رعیت یعنی اہل خانہ کی بابت پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی محافظ ہے اور اس سے ان کی بابت سوال کیا جائے گا، آدمی کا غلام اپنے مالک کے مال کا نگراں ہے اور اس کی بابت دریافت کیا جائے گا سنو! تم سب کے سب راعی ہو اور تم سب اپنی رعیت کی بابت سوال کیے جاؤگے۔ ‘‘
ماں باپ اگر بچوں کی اصلاح وتربیت میں خاصی توجہ سے کام لیتے ہیں تو یہ بچوں کے حق میں صدقہ وخیرات کرنے سے بھی زیادہ بہترہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لأن یُؤَدَّبُ الرَّجُلُ وَلَدَہٗ خَیْرٌ لَّہُ مِنْ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ۔)) [2]
’’آدمی کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘
|