ایک اللہ کے بندے اور غلام ہیں ، خالق حقیقی کے سامنے تمام اپنے دنیاوی منصب وجاہ کو ترک کرکے، اپنی مسکنت وفقیری، عبدیت وغلامیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ یا الہ العالمین! ہم تیرے دربار میں سب ایک ہیں ، اس قسم کے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں جس کا اعتراف دشمنان اسلام اور اغیار بھی کرتے ہیں لیکن ہمارا اصل مقصد اللہ کوراضی کرنا ہے ، دوسرے فوائد حاصل ہوں تو ٹھیک ورنہ اس کی حکمت کی طرف ہمیں دوڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، ہمیں شریعت کے مطابق عمل کرنا ہے ۔
شریعت اسلامیہ کا اصل مقصد آخرت کی سرخروئی اور کامیابی ہے، اس لیے اس نے والدین کے ناتواں کندھوں پہ بچوں کی تربیت وپرداخت کی ذمہ داری ڈالی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o﴾ (التحریم: ۶)
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو او راپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتاہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں والدین اور سرپرستوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ خود بھی ایسا کام کرو جس سے تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالو اور اہل وعیال کو بھی جہنم کی آگ کا ایندھن بننے سے بچالو، اگر والدین اس ذمہ داری کو نہیں نبھاتے ہیں تو ان سے اس کے بارے میں باز پرس ہو گی، ماں باپ ہی اولاد کو بگاڑ تے اوربناتے ہیں ، اس لیے ان سے اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|