اسلام کے تمام احکام وفرامین، حکمت ودانش مندی سے پر ہیں ، خواہ ہمیں ان کی افادیت وحکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، ان پہ ہمیں عمل کرنا ہے، ان پہ عمل پیرا ہونے کا اصل مقصد ومنشااللہ رب العزت کی رضا اور خوش نودی ہے، مثلاً ہم نماز پڑھتے ہیں ، اس سے اصل مقصد اللہ رب العالمین کی رضا اور خوش نودی حاصل کرناہے، لیکن طبی نقطہ نظر سے نماز سے جسمانی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں ، مثلا قیام، رکوع وسجود سے تمام جسم کی ورزش ہوتی ہے، لیکن ہمارا مقصود اللہ کی عبادت وبندگی ہے، ہم اللہ کو خوش کرنے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ، اگر دوسرے فوائد بھی حاصل ہورہے ہیں توٹھیک ہے لیکن یہ فوائد ہمارامقصود نہیں ہیں ۔
ہم زکوٰۃ دیتے ہیں تاکہ غرباء ومساکین اور فقراء کی اعانت ومدد ہو، ہماری ذہنی اور دلی کثافتیں دور ہوں ، مال ودولت سے محبت ختم ہو، اللہ سے رشتہ استوار ہو، لیکن یہ سب چیزیں ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں ، ہمار اصل مقصد یہ ہے کہ ہم زکوۃ اس لیے نکالتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور یہ ایک مومن کی علامت ہے کہ وہ اوامر الٰہی کو فوراً بلا چوں وچرا بجالاتاہے ۔
ہم روزہ اس لیے رکھتے ہیں کہ ہمارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوجائے اور اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو ہمار ا اصل مقصد ہے ، گرچہ اس سے نفسیاتی ، روحانی اور بدنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ، لیکن ہمیں یہ ظاہری فائدے حاصل نہ ہوں پھر بھی روزہ رکھنا ہے، کیونکہ یہ اللہ کی جانب سے فرض ہے۔
ہم دور دراز سے سفر کرکے، لمبی مسافت طے کر کے اورکافی مال ودولت خرچ کر کے حج کے لیے آتے ہیں ، اس سے اصل مقصد معبود حقیقی کو خوش کرنا ہے جو ہمارا اصل مقصد ہے لیکن اس سے مسلمانوں کی طاقت وقوت میں اضافہ ہوتاہے، اسلام کی سربلندی ہوتی ہے، جب تمام عالم کے مسلمان ایک ہی قسم کے لباس وپوشاک زیب تن کر کے، امیر وغریب ، بادشاہ وفقیر ایک ساتھ طواف کرتے ہیں ، صفاومرہ کی سعی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام ایک ہیں ،
|