’’جس آدمی کی تین بچیاں ہوں اور وہ ان کا بہت خیال رکھے، اپنی کمائی سے انہیں کھلائے، پلائے اور لباس مہیا کرے تو وہ بچیاں قیامت کے دن آگ سے تحفظ کا سامان بن جائیں گی۔‘‘
بچیوں میں بہنیں بھی داخل ہیں ، اگر بہنیں بھی ہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی کفالت کرنا اجر عظیم کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((مَنْ کُنَّ لَہٗ ثَـلَاثَ بَنَاتٍ، أَوْ ثَلَاثَ أَخَوَاتٍ ، فَاتقی اللّٰہ وَأَقَامَ عَلَیْہِنَّ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ ہٰکَذَا وَ أَوْمَا بِالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطٰی۔)) [1]
’’جس کسی کی تین بیٹیاں ہوں یا تین بہنیں ہوں ، پھر وہ اللہ کا خوف کھاکر ان کی پرورش کرتاہے تو وہ میرے ساتھ اس طرح جنت میں ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی اور شہادت والی دونوں انگلیوں کی طرف اشارہ فرمایا ۔‘‘
اس لیے والدین کو لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تفریق کی دیوار نہیں کھڑی کرنی چاہیے، جس طرح لڑکے تعلیم وتربیت کے محتاج ہیں ، تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہو ، لڑکیاں ان سے کہیں زیادہ اچھی تعلیم وتربیت اور نظر کرم کی محتاج و مستحق ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہی لڑکیوں کے ہاتھ میں اگلی نسل انسانی کا مستقبل اور باگ ڈور ہے۔ اگر لڑکیوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ نہیں کیا جائے گا ، قرآن وحدیث کی تعلیم نہیں دی جائے گی تووہ اولاد کی صحیح تربیت کیسے کریں گی کیونکہ ماں کا آغوش بچے کے لیے پہلا مکتب ومدرسہ ہوتا ہے ۔
ہمیں بہر صورت بچوں کی اچھی تربیت وپرورش کر نی چاہیے، خواہ بچے ہمیں مستقبل میں فائدہ پہنچائیں یا نہ پہنچائیں اور یہ شریعت اسلامیہ کا حکم ہے، ہمیں اس پہ عمل پیرا ہونا ہے۔
|