وتربیت کی طرف رخ نہیں کرتے ، بلکہ بچوں کو اور آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے غیر مہذبانہ اور نازیبا اطوار وخصائل پہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ میرا بچہ بہت ذہین وفطین اور بہت تیز ہوگا ، مستقبل میں اس کی کامیابی وکامرانی کے آثار نظر آرہے ہیں لیکن جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی جن عادات وخصائل پہ بچپن میں خوش ہوتے تھے اب سن شعور میں ان کی اصلاح وسدھار کے لیے تگ ودو کرتے ہیں تو اس وقت انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور اس وقت اپنی بیوقوفی اور کم ظرفی پہ ماتم کے آنسو بہاتے ہیں لیکن …
اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت
اسی طرح بعض والدین لڑکوں کی تعلیم وتربیت پہ زیادہ دھیان دیتے ہیں ، یہ سوچ کر کہ مستقبل میں لڑکے ہمارا ساتھ دیں گے، بڑھاپے میں ہماری خدمت کریں گے، حالانکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ صحیح اسلامی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے شادی ہوتے ہی لڑکے الگ ہوجاتے ہیں اور والدین کو پوچھتے بھی نہیں ، اس کے برخلاف لڑکیوں کی تعلیم وتربیت اور ان پہ مال ودولت خرچ کرنا بے کار وفضول سمجھا جاتاہے حالانکہ وہی والدین کے لیے زیادہ کار آمد ہوتی ہیں ، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑھاپے کے عالم میں لڑکے اپنے والدین کو چھوڑ کر ان کی نظروں سے دور چلے جاتے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ اور ان کی خدمت گزاری نہیں کرتے ہیں ، ان پر روپے، پیسے خرچ نہیں کرتے ہیں ، تو ان نازک ا وقات میں بیٹیاں ہی والدین کے کام آتی ہیں او رجسمانی وبدنی ہر اعتبار سے ان کی خدمت کرتی ہیں ۔
بیٹیاں معاشرے کے لیے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہوتی ہیں ، معاشرہ کے لیے اس معنی میں فائدہ مند ہوتی ہیں کہ انہی کے وجود سے کائنات میں رعنائی اور دلفریبی ہے، انہی کی وجہ سے افزائش نسل ہے، اگر یہ نہ ہوں تو سارا معاشرہ تباہ وبرباد ہوجائے، ہر جگہ فساد وبگاڑ برپا ہو جائے ، یہ ایمانی ، اخلاقی ، جسمانی اورجنسی ہر لحاظ سے فائدہ مند ہیں ، ان کے ساتھ شادی و بیاہ کے ذریعے سے معاشرہ میں پنپنے والی ہر قسم کی بیماریوں کا قلع قمع کیا جاتا
|