اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر (سلوک کرنے والا) ہوں ۔‘‘
نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَکْمَلَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُہُمْ خَلْقًا وَخَیَارُکُمْ لِنِسَائِ ہِمْ خُلْقًا۔)) [1]
’’ایمانداروں میں ایمان کے لحاظ سے کامل وہ ہیں جو اخلاق کے لحاظ سے اچھے ہیں اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہیں ۔‘‘
ان احادیث میں بہتر اور اچھا ہونے کی ایک علامت بتلا دی گئی ہے کہ سب سے بہتر اور معزز انسان وہ ہے جو اپنی بیوی اور گھروالوں کے لیے اچھا ہے، ان احادیث کی روشنی میں ہر آدمی اپنے آپ کو پرکھ اور ٹٹول سکتا ہے کہ وہ کہاں تک اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا اور بہتر سلوک کرتا ہے اور بیویوں کے حقوق کس حد تک ادا کرتاہے، ان احادیث سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ جو اپنوں کے ساتھ انصاف اور احسان نہیں کرسکتا وہ دوسروں کے ساتھ بھی احسان نہیں کرسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کے حقوق بیان فرمادیے ہیں ، تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بیوی کے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں ۔
عون بن ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی اور ابودرداء رضی اللہ عنہما میں اخوت وبھائی چارگی کرادی تھی، ایک روز سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ، ابودرداء رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے، انہوں نے ام درداء کو بوسیدہ کپڑے میں دیکھ کر پوچھا !تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اس حالت میں بیٹھی ہو؟ ام درداء نے کہا ، آپ کے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی حاجت نہیں ہے، (یعنی مجھ میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں جس کی وجہ سے میں نہ اچھے لباس پہنتی ہوں اور نہ ہی بناؤ سنگھار کرتی ہوں )، اتنے میں
|