کا ہے، جو ایک باعزت وبااخلاق انسان، جلیل القدر عالم دین ، متقی وپرہیزگار، عابد وزاہد، فقیہوں کے فقیہ اور تابعین کے سردار تھے ، مسجد نبوی میں درس دیتے تھے، علم حاصل کرنے والوں کا ایک جم غفیر حاضر درس ہوتا تھا، جو اتنے دیندار اور بندہ خدا تھے کہ چالیس سالوں سے ان پر کوئی ایسا وقت نہیں گزرا کہ اذان ہورہی ہو اور وہ مسجد میں حاضر نہ ہوں ، انہی کے بارے میں آتا ہے کہ خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کے لیے ان کی بیٹی کے پاس پیغام بھیجا لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہوں نے بادشاہ وقت کے پیغام کو کیوں ٹھکرادیا جس کے حصول کے لیے ہم رات دن تگ ودو کرتے ہیں ، اگر ہمیں ایسا مبارک رشتہ مل جائے تو کبھی ہم ترک نہیں کریں گے۔لیکن قربان جایئے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ پر کہ انہوں نے مال ودولت، شہرت وسمعت، ریا ونمود، فخر ومباہات، دنیاوی عیش وآرام کو بالائے طاق رکھ دیا اور محض دینداری، استقامت واستقلال، ستر وحجاب، حفاظت وصیانت ، عفت وپاکدامنی اور اخلاق وکردار کو ترجیح د ی اور اپنی عالمہ، فاضلہ، فقیہہ، عفت وعصمت کی پیکر، اخلاق وکرداراور ادب واحترام کے اعلی مقام پہ فائز، کتاب وسنت کے علم سے متصف ، شوہر کے حقوق کو سب سے زیادہ جاننے والی ، عورتوں میں بے مثال اور عدیم النظر، دختر نیک اختر کی شادی محض دو درہم مہر کے عوض میں ایک فقیر ومسکین شخص سے کر دی، جس کا نام نامی اسم گرامی کثیر بن ابی وداعہ تھا جو خود سعید بن مسیب کے شاگرد رشید تھے ۔
قارئین کرام! ان مذکورہ دونوں واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شادی وبیاہ کا مسنون طریقہ کتنا آسان اور سہل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ۔)) [1]
’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ بہت کم ہو۔‘‘
|