کرکے اللہ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کی کوشش کرکے روز قیامت اپنے والدین کی عزت وعظمت اور جنت میں درجات کی بلندی جو کہ مجاہدین اور شہداء کے والدین کو قیامت میں ملے گی، کا باعث بنیں گے اور پھر دنیا میں رہتے ہوئے بھی زیادہ بیٹے اور اولاد معاشرے میں قوت وطاقت اور عزت کا باعث بنیں گے۔
مذکورہ دونوں چیزوں کے متعلق یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خاوند کے ساتھ محبت بھی کرے گی ، اس کے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کے احوال سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان کا رویہ اور باہمی برتاؤ کیسا جارہا ہے اور ان کی اولاد کس قدر ہیں :
۵…((عَلَیْکُمْ بِالْأَبْکَارِ فَإِنَّہُنَّ أَنْتَقُ أَرْحَامًا وَأَعْذَبُ أَفْوَاہًا وَأَرْضَی بِالْیَسِیرِ۔))[1]
’’تم دوشیزہ اورکنوار ی سے شادی کرو کیونکہ وہ شیریں دہن ، زیادہ بچے جننے والی اور تھوڑی سی چیز سے زیادہ خوش ہونے والی ہوتی ہیں ۔‘‘
معاشرے میں اصل فساد وبگاڑ کی جڑ یہ ہے کہ شادی کے وقت دینداریت کو اولیت نہیں دی جاتی ہے، صرف حسب ونسب خاندان اور مال ودولت کو دیکھا جاتاہے اور جہاں زیادہ جہیز اور روپیہ ملنے کی امید ہوتی ہے وہی شادیاں رچائی جاتی ہیں ، جس کی بنا پر چند دنوں تک خوش گوار زندگی بسر ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس میں رخنہ اور دراڑ یں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ((ہَلْ مِنْ مَّزِیْد )) کی خواہشات ازدواجی زندگی کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکتی ہیں جس کی وجہ سے ایک سر سبز وشاداب اور تناور دخت بننے سے پہلے اس کے پتے مرجھا جاتے ہیں ، اب یا تو اختلاف وانتشار کے باوجود زندگی کی گاڑی یوں ہی چلتی رہتی ہے یا ابد الآباد کے لیے جدائی ہوجاتی ہے، اس لیے ظاہری حسن وخوبصورتی اور مال ودولت پہ
|