پہ خرچ کرنے، رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے سے ان میں اضافہ ہوتاہے اور ہر قسم کی تباہی وبربادی سے محفوظ رہتے ہیں ، دولت سے محبت کرنا اسے تجوری میں بند کرکے رکھنا ، زکوٰۃ نہ نکالنا ، یہ ایسی بد اخلاقی اور سماجی ومعاشرتی اعتبار سے ایسا گھناؤنا جرم ہے جس کا خمیازہ مال دار لوگ برابر بھگتتے رہتے ہیں ، کبھی فصل برباد ہوجاتی ہے، کبھی چوری ، ڈکیتی، لوٹ کھسوٹ ہوجاتی ہے تو کبھی تجارت وسوداگری میں خسارہ ونقصان ہوجاتاہے، اللہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر ہے اگر آپ کو مال ودولت کے خزانے دیکر تخت شاہی پہ بٹھا سکتا ہے تو اسے چھین کر کشکول گداگری لے کر در بدر بھٹکنے پر مجبور بھی کرسکتا ہے، چشم دنیا نے بہت سارے مال داروں کو دیکھا ہے، جو اپنے مال ودولت کی کثرت، پرشکوہ عمارت کی بلندی، دنیاوی آرام وآسائش کی چیزوں پہ فخر ومباہات کے تازیانے سجاتے تھے۔ انہیں اپنے ہی غریب ومفلس رشتہ داروں کا محتاج بنا دیا، دنیاوی مال ودولت ایک جگہ جمع نہیں رہتی ، اس کا تبادلہ ہوتارہتاہے، دنیاوی کاروبار میں تبادلہ کا عنصر ہی کار فرماں ہے جس سے دنیا کا نظام چل رہا ہے، لوگوں کے ساتھ یکساں حالات نہیں رہتے ہیں ، غریبی مال داری، مفلسی، بادشاہی الٹتے پلٹتے رہتے ہیں ، اس لیے رشتہ داروں کو صلہ رحمی کرنی چاہیے اور اپنی ترقی وارتقاء، خیرو برکت، چین وسکون ، آرام وراحت اور دنیاوآخرت کی فلاح وبہبود پہ قطع تعلق کی تباہ کن کلہاڑی مار کر انہیں غارت نہیں کرنی چاہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعُ رَحْمِ)) [1]
’’قطع رحمی کرنے والا (یعنی رشتہ داروں اور اہل قرابت کے ساتھ برا سلوک کرنے والا) جنت میں نہیں جا سکے گا ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ الرَّحْمَۃَ لَا تَنْزِلُ عَلٰی قَوْمٍ فِیْہِمْ قَاطِعُ رَحِمٍ۔)) [2]
|